حیدرآباد: امرتا پریتم کو پنجاب کی پہلی شاعرہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ امریتا پریتم کی پیدائش سنہ 1919 میں پنجاب میں واقع گجراں والا میں ہوئی تھی۔ ان کا بچپن اور ابتدائی تعلیم لاہور میں ہوئی۔ امریتا پریتم کو بچپن سے ہی شاعری اور مضمون لکھنے کا شوق تھا، ان کی اہم ناول پانچ برس لمبی سڑک، پنجر، ادالت، کورے کاغذ، انچاس دن، ساگر اور سیپیاں نے انہیں ادبی دنیا میں لافانی کر دیا۔
امریتا پریتم کو کئی اعزاز سے بھی نوازا گیا ہے۔ سال 1957 میں ساہیتہ اکیڈمی ایوارڈ، سال 1988 میں بلغاریہ ویروو ایوارڈ اور سنہ 1982 میں بھارت کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ گیان پیٹھ ایوارڈ سے بھی انھیں سرفراز کیا گیا۔ ان کی سو سے زائد کتابیں شائع ہوئیں، جن میں شاعری کے علاوہ کہانیوں کے مجموعے، ناول اور تنقیدی مضامین کے انتخابات بھی شامل ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے حوالے سے ان کے ناول پنجر پر اسی نام سے فلم بھی بن چکی ہے۔
وہ راجیہ سبھا کی رکن بھی رہیں اور انھیں پدم شری کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ انھیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ اور دیگر اعزازات بھی حاصل ہوئے، جن میں پنجابی ادب کے لیے گیان پیٹھ ایوارڈ بھی شامل ہے۔ ساحر لدھیانوی کے ساتھ ان کا معاشقہ ادبی دنیا کے مشہور معاشقوں میں شمار ہوتا ہے، جس کی تفصیل تھوڑی بہت ان کی کتاب رسیدی ٹکٹ میں موجود ہے۔
امریتا پریتم اپنی کتاب 'اکشروں کی راسلیلا' میں لکھتی ہیں...
گھر، قبیلہ، معاشرہ، مذہب اور سیاست ہمارے چاند اور سورج بھی ہیں اور سورج گرہن کے وقت جب کوئی شاعر، عاشق یا درویش پیدا ہوتا ہے تو یہ حقیقت ہے کہ اس کے سر پر درد کا موتی گرتا ہے۔ شعور کا سفر بہت طویل ہے! رشتوں کے ٹوٹنے سے جب گھر اور قبیلے کو گرہن لگ جاتا ہے تو جو شعور پیدا ہوتا ہے اس کا اپنا ایک درد ہوتا ہے۔
جب معاشرہ طرح طرح کی ناانصافیوں سے آگاہ ہوتا ہے تو شعور کے احساس کی شدت اپنی نوعیت کی ہوتی ہے۔ جب مذہب کے چاند کو کسی فرقہ پرست سے گرہن لگے تو آسمان کی روح کیسی اذیت ہوتی ہے، یہ شعور اپنی نوعیت کا ہوتا ہے۔ اور جب اقتدار کی ہوس میں سیاست کا سورج گرہن ہوتا ہے تو زمین کی روح کیسے روتی ہے، یہ شعور اپنی نوعیت کا ہوتا ہے۔ دنیا کی ادبی تاریخ میں درد کے موتی مل جاتے ہیں لیکن کسی ادیب کے شعور کو زندگی کے کتنے گرہن دیکھنے اور سہنے پڑتے ہیں کوئی نہیں جانتا۔
امرتا پریتم کی کتاب 'دستاویز' سے چند خطوط:
دستاویز میں لکھے گئے تمام خطوط امرتا پریتم نے اپنے عزیز دوست امروز کو لکھے تھے۔ جو صرف ڈاک کے ذریعے امروز کو بھیجے گئے تھے، یہ خطوط امرتا کی کسی تحریر وغیرہ میں شامل نہیں کیے گئے ہیں۔ امروز نے ان خطوط کو اکٹھا کر کے انہیں ایک دستاویز کی صورت میں کتابی شکل دی ہے۔
امروز لکھتے ہیں...
امرتا نے مجھے جو پہلا خط لکھا وہ صرف ایک لائن کا تھا۔ وہ مجھے بمبئی میں ملے، جب میں گرو دت کے ساتھ کام کرنے کے لیے 'شمع' اور دہلی چھوڑ کر آیا تھا۔ وہ ایک لائن تھی... بمبئی اپنے فنکاروں کو 'جی آیاں' (خوش آمدید) کہتا ہے۔' جس دن مجھے یہ خط بمبئی میں ملا، مجھے لگا جیسے امرتا کے وجود کا نام بمبئی ہے۔
امرتا کے الفاظ میں...