بیروت:جب بھی اسرائیل کے فضائی حملوں میں کوئی رہنما جاں بحق ہوتا ہے، حماس کے پاس مارے جانے والے لیڈروں کی فوری اور ہموار تبدیلی کی تاریخ ہے۔ بدھ کو ایرانی دارالحکومت میں اسماعیل ہنیہ کا قتل ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب حماس جنوبی اسرائیل پر اپنے حملے کے بعد سے تقریباً 10 ماہ سے جاری جنگ کے چلتے مزاحمتی تنظیم شدید دباؤ میں ہے۔
حماس کے ایک رکن سے جب ہنیہ کے متبادل کے بارے میں پوچھا گیا تو، نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹیڈ پریس کو انھوں نے بتایا کہ، "ہم ابھی اس معاملے پر بات نہیں کر رہے ہیں،"
ہنیہ نے اپنی موت تک گروپ کے سیاسی بیورو کی سربراہی کی۔ ان کے نائب صالح اروری تھے، جو جنوری میں بیروت میں ایک اسرائیلی حملے میں قتل کر دیے گئے تھے ۔ اگر وہ حیات ہوتے تو خود کار طریقے سے ہنیہ کے متبادل ہوتے۔ اروری کا عہدہ ان کے قتل کے بعد سے خالی ہے۔
حماس کا شوریٰ کونسل جلد ملاقات کرے گا:
گروپ کا اہم مشاورتی ادارہ شوریٰ کونسل کے اب جلد ہی ملاقات کرنے کی توقع ہے۔ ممکنہ طور پر قطر میں ہنیہ کی تدفین کے بعد، نئے جانشین کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ کونسل کی رکنیت کو خفیہ رکھا جاتا ہے لیکن یہ گروپ کے علاقائی ابواب غزہ، مغربی کنارے اور تارکین وطن اور قیدیوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
ظہیر جبرین کو مل سکتی ہے کمان:
ہنیہ کے نائبین میں سے ایک ظہیر جبرین تھے، جنہیں گروپ کے مالیاتی انتظامات میں اہم کردار ادا کرنے کی وجہ سے گروپ کا چیف ایگزیکٹو آفیسر قرار دیا گیا ہے، اور ان کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔
خالد مشعل اور خلیل الحیا حماس کی طاقتور شخصیتیں:
فلسطینی تنظیموں کے ماہر ہانی المصری نے کہا کہ اب حماس کے ایک تجربہ کار عہدیدار اور سابق رہنما خالد مشعل اور حماس کے اندر ایک طاقتور شخصیت خلیل الحیا کے درمیان انتخاب کا امکان ہے جو ہنیہ کے قریب تھے۔
فلسطینی مرکز برائے پالیسی و تحقیق اور سٹریٹیجک اسٹڈیز کے سربراہ المصری کا کہنا ہے کہ، "یہ آسان نہیں ہو گا،"۔ المصری کے مطابق حماس کے نئے سیاسی رہنما کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا فوجی آپشن کو جاری رکھنا ہے، اور بنیادی طور پر ایک گوریلا اور زیر زمین گروپ بننا ہے، یا ایسے رہنما کا انتخاب کرنا ہے جو سیاسی سمجھوتوں کی پیشکش کر سکے، جو کہ اس مرحلے پر ایک غیر متوقع آپشن ہے۔
یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کے ساتھ اسرائیل-فلسطین تنازعہ کے ماہر ہیو لوواٹ نے کہا کہ ہنیہ کے قتل سے "تحریک کے اندر سخت گیر افراد کو تقویت ملے گی اور حماس کو سخت گیر حکمت عملی کی طرف اور سفارت کاری اور سیاست سے دور کرنے کا امکان ہے۔"
مشعل کو سیاسی اور سفارتی تجربہ ہے، لیکن ایران، شام اور حزب اللہ کے ساتھ ان کے تعلقات 2011 میں عرب مظاہروں کی حمایت کی وجہ سے خراب ہو گئے ہیں۔ جب وہ 2021 میں لبنان میں تھے، مبینہ طور پر حزب اللہ کے رہنماؤں نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔
لیکن مشعل کے ترکی اور قطر کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور انہیں ایک زیادہ اعتدال پسند شخصیت سمجھا جاتا ہے جنہوں نے 2017 تک اس گروپ کی سربراہی کی۔ فلسطینی رہنما محمود عباس نے ہفتہ کو ہنیہ کے قتل پر تعزیت کے لیے انہیں فون کیا تھا۔