ETV Bharat / opinion

وقف ترمیمی بل میں کیا ہے؟ جانیے حکومت کی منشا، اس سے ہونے والی تبدیلیاں اور مسلمانوں کے خدشات - Waqf Amendment Bill Details

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Sep 11, 2024, 10:03 AM IST

وقف ترمیمی بل پر ملک بھر میں ہنگامہ کیوں برپا ہے؟ اس بل میں کیا ہے؟ اس سے حکومت کے کیا مقاصد ہیں؟ اس کے قانون بننے پر کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی؟ اس سے متنازع مذہبی مقامات اور زمینوں پر کیا اثر پڑے گا؟ پڑھیے ای ٹی وی بھارت کے صحافی امام الدین علیگ کی رپورٹ....Waqf Amendment Bill, JPC And Muslims concerns

وقف ترمیمی بل اور مسلمانوں کے خدشات
وقف ترمیمی بل اور مسلمانوں کے خدشات (Etv Bharat)

حیدرآباد (نیوز ڈیسک): گذشتہ مانسون اجلاس میں مرکزی حکومت نے آٹھ اگست کو پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پیش کیا۔ شدید مخالفت کے بعد حکومت نے اس بل کو جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) کے حوالے کر دیا۔ فی الوقت ملک بھر میں اس بل کی جنگی پیمانے پر مخالفت جاری ہے۔ مسلم تنظیمیں، علمائے دین اور تمام ملی قائدین میٹنگز، پروگرامز، احتجاج، پریس کانفرنس اور مساجد و مدارس سمیت تمام ذرائع و طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کے خلاف بڑھ چڑھ کر بیداری مہم چلا رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے مسلم پرسنل لا بورڈ نے کیو آر کوڈ بھی جاری کیا ہے اور اسے جگہ جگہ چسپاں کر کے لوگوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ اس بل کے خلاف اپنی تجاویز مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو ای میل کریں۔

وقف ترمیمی بل سے حکومت کے مقاصد

تنظیموں، ملی قائدین اور علما کا موقف ہے کہ وقف ترمیمی بل کے قانون بننے کی صورت میں مرکزی حکومت کو ایسے اختیارات مل جائیں گے جن کی مدد سے وہ ملک بھر میں پھیلی ہوئی وقف املاک کو 'ہڑپ' کر سکتی ہے اور وقف کے اداروں کو 'تباہ' کر سکتی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کا کہنا ہے کہ 'نئے بل میں کلکٹر کو بہت زیادہ اختیارات دے دیے گئے ہیں، جب کہ اصولی طور پر کلکٹر جج نہیں بن سکتا۔' بورڈ کا مزید کہنا ہے کہ 'اس وقف ترمیمی بل کے ذریعہ حکومت وقف کے نظم و نسق کو اپنے ہاتھ میں لے کر ریاستی حکومتوں کو اس سے باہر کرنا چاہتی ہے۔ اس سے مرکزی حکومت کو زیادہ اختیارات مل جائیں گے۔' وہیں ایم آئی ایم سربراہ اسدالدین اویسی نے بھی ایک بیان میں سوال اٹھایا کہ کلکٹر وقف املاک کا جج کیسے ہو سکتا ہے؟ اسی کے ساتھ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'اس بل کے ذریعہ حکومت مسلمانوں سے وقف املاک چھیننا چاہتی ہے۔'

اس بل کے تعلق سے حکومت کی منشا شہری امور کی مرکزی وزارت کے بیان سے بھی واضح طور پر سمجھی جا سکتی ہے۔ مرکزی وزارت نے اس ترمیمی بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ 'اس بل کے پاس ہونے کی صورت میں قانونی لڑائیوں اور عدالتی کیسز میں کمی واقع ہوگی۔' وزارت نے کہا کہ '1970 اور 1977 کے بیچ وقف بورڈ نے نئی دہلی میں 138 جائیدادوں کو اپنا بتاتے ہوئے عدالتوں میں دعوے کیے، جس کی بنیاد پر طویل قانونی لڑائیاں چلیں۔'

وقف ترمیمی بل پیش کرتے وقت کرن رجیجو نے کیا کہا

پارلیمانی اور اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے آٹھ اگست کو پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وقف بورڈ پر مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے اور یہ بل عام لوگوں کے مفاد میں بل لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہ سمجھیں کہ 2024 میں اچانک یہ بل لے آئے۔ اس پر ہم نے کئی مرحلوں میں مشاورت کی۔ انہوں نے احمدیہ، بوہرہ، آغاخانی، شیعہ، سنی، سبھی ریاستوں کے وقف بورڈ کے چیئرمین وغیرہ سے بات کی۔ ان سب کی طرف سے سفارشات آئیں کہ وقف میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وقف املاک کا مناسب انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ انہوں زور دیا کہ وقف بورڈ کو کمپیوٹرائزڈ کیا جائے، میوٹیشن ریونیو کو ریکارڈ کیا جائے۔

اسی کے ساتھ کرن رجیجو نے کہا کہ ملک کی تقسیم کے بعد جتنے بھی ہندو اور مسلمانوں نے بھارت اور پاکستان کی طرف ہجرت کی، ان سب کی وہاں جائیدادیں تھیں، مگر پاکستان کی حکومت نے ہندوؤں کی جائیداد چھین لی لیکن بھارت سے جانے والے مسلمانوں نے ان املاک کو وقف کر دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وقف املاک سے عورتوں اور غریبوں کو فائدہ نہیں ملتا ہے تو کیا حکومت خاموش بیٹھی رہے گی ؟ لہٰذا لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ایوان کی ذمہ داری ہے۔

وقف ترمیمی بل کے سیاسی محرکات

مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت یہ بل ایک ایسے وقت میں لے کر آئی جب گذشتہ چند مہینوں قبل ہوئی پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ یہ بھی واضح ہے کہ بی جے پی کو پوری طرح معلوم تھا کہ اس بل کو مسلمانوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسے وقت میں جب ہریانہ اور جموں و کشمیر میں انتخابات ہو رہے ہیں، اس بل کی مدد سے مسلمانوں کو مشتعل کر کے ہندو ووٹوں کو پولرائز کرنے کی کوشش سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور ہریانہ اور جموں خطے کے انتخابات پر اس ہنگامے کے اثرانداز ہونے کا خدشہ ہے۔

بی جے پی اس بات سے بھی با خبر رہی ہوگی کہ جے ڈی یو اور تیلگو دیشم سمیت دیگر این ڈی اے کی حلیف پارٹیاں مسلمانوں اور بی جے پی حکومت کے موقف میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے میں پش و پیش اور مشکل صورت حال کا شکار ہو جائیں گی۔ پھر سوال یہ ہے کہ اس سب کے باوجود بی جے پی اس بل کو کیوں لائی؟ ممکنہ طور پر بی جے پی اپنی اتحادی پارٹیوں کی حمایت اور ان کی وابستگی کو جانچنا چاہتی ہو، نیز اس بل سے مرکزی حکومت کے اختیارات میں جو اضافہ ہوگا وہ بات اپنی جگہ ہے۔

متنازع مذہبی مقامات اور وقف ترمیمی بل کا کنکشن

اس بل کے تعلق سے ملی قائدین اور مسلم لیڈران یہ خدشہ بھی ظاہر کر ہے ہیں کہ اس کو قانون بنا کر مرکزی حکومت متنازع مذہبی مقامات اور وقف اراضی کو 'ہڑپ' کرنا چاہتی ہے، جیسا کہ اسد الدین اویسی نے اپنے رد عمل میں کہا کہ 'بی جے پی وقف اراضی کو چھیننا چاہتی ہے۔' ملی تنظیموں اور قائدین کے مطابق حکومت اس بل کے قانون بننے کی صورت میں مرکزی حکومت اس کے ذریعہ متنازع مذہبی مقامات اور وقف اراضی کے تعلق سے سخت گیر ہندو تنظیموں کے مندر والے دعوؤں کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کرے گی۔ اس خدشے کے مطابق جن متنازع اراضی پر ہندو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ یہ ہندو مذہبی مقامات پر تعمیر کیے گئے ہیں، حکومت مستقبل میں اس بل کو تنظیموں کے دعوؤں کی حمایت میں استعمال کر سکتی ہے۔

وقف ترمیمی بل میں موجود تجاویز اور تبدیلیاں

1- وقف ترمیمی بل 2024 میں پرانے قانون 'وقف ایکٹ 1995' کا نام بدل کر 'یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ، امپاورمنٹ، ایفیشینسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ 1995' رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

2- اس بل کے تحت وقف بورڈز کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اپنی املاک کو ضلع کلکٹر کے پاس رجسٹر کرائیں تاکہ ان کی اصل قیمت اور حیثیت کا تعین کیا جا سکے۔

3- یہ بل "وقف" کو کسی بھی فرد کے وقف کے طور پر بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کم از کم پانچ سال تک اسلام پر پر قائم رہا ہو اور اس کے وقف میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہو کہ وقف علی الاولاد کی صورت میں وراثت میں خواتین کی حق تلفی نہ کی گئی ہو۔

4- اس بل میں بورڈ کے اختیارات سے متعلق سیکشن 40 کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کے تحت بورڈ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ آیا کوئی جائیداد وقف جائیداد ہے یا نہیں۔

5- اس بل میں متوالوں کی سرگرمیوں پر بہتر کنٹرول کے لیے انہیں وقف کے اکاؤنٹس بورڈ کو ایک مرکزی پورٹل کے ذریعے جوڑنے کی سہولت فراہم کرنے، دو ممبران پر مشتمل ڈھانچے کے ساتھ ٹریبونل میں اصلاحات کرنے اور ٹربیونل کے احکامات کے خلاف 90 دنوں کی مخصوص مدت کے اندر ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔

6- اس بل کے مطابق مختلف ریاستی بورڈز کی جانب سے دعوی کردہ متنازع زمینوں کی نئے سرے سے تصدیق بھی کی جائے گی۔

7- اس بل میں بوہرہ اور آغاخانی مسلمانوں کے لیے الگ سے وقف بورڈ کے قیام کا بھی التزام کیا گیا ہے۔

8- ترمیمی بل میں وقف بورڈ کی تشکیل میں تبدیلی کرتے ہوئے ان میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کی بات کہی گئی ہے۔

ہندو اوقاف بورڈ (مدراس انڈومنٹ ایکٹ) میں ترمیم کیوں نہیں؟

مسلم قائدین کا سوال ہے کہ مرکزی حکومت آزادی کے بعد 1951 میں بنے مدراس ہندو مذہبی اور خیراتی اوقاف ایکٹ کو چھوڑ کر صرف مسلم وقف بورڈ میں ہی ترمیم کیوں کرنا چاہتی ہے۔ واضح رہے کہ مدراس ہندو مذہبی اور خیراتی اوقاف ایکٹ 1951 میں کمشنر کی سربراہی میں ہندو مذہبی اور خیراتی اوقاف کا ایک محکمہ بنایا اور عہدیداروں کی درجہ بندی کی گئی۔ اس محکمہ کو ہندو مندروں اور مٹھوں کے سیکولر امور کی نگرانی کا اختیار دیا گیا تھا۔ اس کے تحت موروثی ملازمین کے روایتی نظام کو ختم کر دیا گیا اور مختلف سطحوں پر اتھارٹی، فرائض اور ذمہ داریوں کی وضاحت کرنے والا ایک نیا ڈھانچہ لاگو کیا گیا۔ ملی قائدین کا کہنا ہے کہ مدراس ہندو مذہبی اور خیراتی اوقاف ایکٹ میں موجود التزامات کو درکنار کرتے ہوئے مندروں میں آج بھی موروثی نظام چل رہا ہے، اس کے باجود حکومت اس میں ترمیم کی بات نہیں کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ فی الوقت ملک بھر میں وقف بورڈز کی ملکیت میں 9.4 لاکھ ایکڑ پر پھیلی 8.7 لاکھ جائیدادیں ہیں۔ وقف بورڈ ہندوستان میں تیسرا سب سے بڑا لینڈ بینک رکھتا ہے۔ مگر اسی کے ساتھ وقف املاک کی آمدنی، ان کا استعمال اور ان افادیت بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں ہندوفرقے کے لوگ بھی ہیں شامل

وقف ترمیمی بل کی مخالفت کریں، بھارتی مسلمانوں سے ذاکر نائیک کی اپیل پر کرن رجیجو کا ردعمل

وقف ترمیمی بل 2024 کا واحد مقصد مسلمانوں کی اوقافی املاک کو چھیننا ہے: اسدالدین اویسی

حیدرآباد (نیوز ڈیسک): گذشتہ مانسون اجلاس میں مرکزی حکومت نے آٹھ اگست کو پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پیش کیا۔ شدید مخالفت کے بعد حکومت نے اس بل کو جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) کے حوالے کر دیا۔ فی الوقت ملک بھر میں اس بل کی جنگی پیمانے پر مخالفت جاری ہے۔ مسلم تنظیمیں، علمائے دین اور تمام ملی قائدین میٹنگز، پروگرامز، احتجاج، پریس کانفرنس اور مساجد و مدارس سمیت تمام ذرائع و طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کے خلاف بڑھ چڑھ کر بیداری مہم چلا رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے مسلم پرسنل لا بورڈ نے کیو آر کوڈ بھی جاری کیا ہے اور اسے جگہ جگہ چسپاں کر کے لوگوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ اس بل کے خلاف اپنی تجاویز مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو ای میل کریں۔

وقف ترمیمی بل سے حکومت کے مقاصد

تنظیموں، ملی قائدین اور علما کا موقف ہے کہ وقف ترمیمی بل کے قانون بننے کی صورت میں مرکزی حکومت کو ایسے اختیارات مل جائیں گے جن کی مدد سے وہ ملک بھر میں پھیلی ہوئی وقف املاک کو 'ہڑپ' کر سکتی ہے اور وقف کے اداروں کو 'تباہ' کر سکتی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کا کہنا ہے کہ 'نئے بل میں کلکٹر کو بہت زیادہ اختیارات دے دیے گئے ہیں، جب کہ اصولی طور پر کلکٹر جج نہیں بن سکتا۔' بورڈ کا مزید کہنا ہے کہ 'اس وقف ترمیمی بل کے ذریعہ حکومت وقف کے نظم و نسق کو اپنے ہاتھ میں لے کر ریاستی حکومتوں کو اس سے باہر کرنا چاہتی ہے۔ اس سے مرکزی حکومت کو زیادہ اختیارات مل جائیں گے۔' وہیں ایم آئی ایم سربراہ اسدالدین اویسی نے بھی ایک بیان میں سوال اٹھایا کہ کلکٹر وقف املاک کا جج کیسے ہو سکتا ہے؟ اسی کے ساتھ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'اس بل کے ذریعہ حکومت مسلمانوں سے وقف املاک چھیننا چاہتی ہے۔'

اس بل کے تعلق سے حکومت کی منشا شہری امور کی مرکزی وزارت کے بیان سے بھی واضح طور پر سمجھی جا سکتی ہے۔ مرکزی وزارت نے اس ترمیمی بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ 'اس بل کے پاس ہونے کی صورت میں قانونی لڑائیوں اور عدالتی کیسز میں کمی واقع ہوگی۔' وزارت نے کہا کہ '1970 اور 1977 کے بیچ وقف بورڈ نے نئی دہلی میں 138 جائیدادوں کو اپنا بتاتے ہوئے عدالتوں میں دعوے کیے، جس کی بنیاد پر طویل قانونی لڑائیاں چلیں۔'

وقف ترمیمی بل پیش کرتے وقت کرن رجیجو نے کیا کہا

پارلیمانی اور اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے آٹھ اگست کو پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وقف بورڈ پر مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے اور یہ بل عام لوگوں کے مفاد میں بل لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہ سمجھیں کہ 2024 میں اچانک یہ بل لے آئے۔ اس پر ہم نے کئی مرحلوں میں مشاورت کی۔ انہوں نے احمدیہ، بوہرہ، آغاخانی، شیعہ، سنی، سبھی ریاستوں کے وقف بورڈ کے چیئرمین وغیرہ سے بات کی۔ ان سب کی طرف سے سفارشات آئیں کہ وقف میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وقف املاک کا مناسب انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ انہوں زور دیا کہ وقف بورڈ کو کمپیوٹرائزڈ کیا جائے، میوٹیشن ریونیو کو ریکارڈ کیا جائے۔

اسی کے ساتھ کرن رجیجو نے کہا کہ ملک کی تقسیم کے بعد جتنے بھی ہندو اور مسلمانوں نے بھارت اور پاکستان کی طرف ہجرت کی، ان سب کی وہاں جائیدادیں تھیں، مگر پاکستان کی حکومت نے ہندوؤں کی جائیداد چھین لی لیکن بھارت سے جانے والے مسلمانوں نے ان املاک کو وقف کر دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وقف املاک سے عورتوں اور غریبوں کو فائدہ نہیں ملتا ہے تو کیا حکومت خاموش بیٹھی رہے گی ؟ لہٰذا لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ایوان کی ذمہ داری ہے۔

وقف ترمیمی بل کے سیاسی محرکات

مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت یہ بل ایک ایسے وقت میں لے کر آئی جب گذشتہ چند مہینوں قبل ہوئی پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ یہ بھی واضح ہے کہ بی جے پی کو پوری طرح معلوم تھا کہ اس بل کو مسلمانوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسے وقت میں جب ہریانہ اور جموں و کشمیر میں انتخابات ہو رہے ہیں، اس بل کی مدد سے مسلمانوں کو مشتعل کر کے ہندو ووٹوں کو پولرائز کرنے کی کوشش سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور ہریانہ اور جموں خطے کے انتخابات پر اس ہنگامے کے اثرانداز ہونے کا خدشہ ہے۔

بی جے پی اس بات سے بھی با خبر رہی ہوگی کہ جے ڈی یو اور تیلگو دیشم سمیت دیگر این ڈی اے کی حلیف پارٹیاں مسلمانوں اور بی جے پی حکومت کے موقف میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے میں پش و پیش اور مشکل صورت حال کا شکار ہو جائیں گی۔ پھر سوال یہ ہے کہ اس سب کے باوجود بی جے پی اس بل کو کیوں لائی؟ ممکنہ طور پر بی جے پی اپنی اتحادی پارٹیوں کی حمایت اور ان کی وابستگی کو جانچنا چاہتی ہو، نیز اس بل سے مرکزی حکومت کے اختیارات میں جو اضافہ ہوگا وہ بات اپنی جگہ ہے۔

متنازع مذہبی مقامات اور وقف ترمیمی بل کا کنکشن

اس بل کے تعلق سے ملی قائدین اور مسلم لیڈران یہ خدشہ بھی ظاہر کر ہے ہیں کہ اس کو قانون بنا کر مرکزی حکومت متنازع مذہبی مقامات اور وقف اراضی کو 'ہڑپ' کرنا چاہتی ہے، جیسا کہ اسد الدین اویسی نے اپنے رد عمل میں کہا کہ 'بی جے پی وقف اراضی کو چھیننا چاہتی ہے۔' ملی تنظیموں اور قائدین کے مطابق حکومت اس بل کے قانون بننے کی صورت میں مرکزی حکومت اس کے ذریعہ متنازع مذہبی مقامات اور وقف اراضی کے تعلق سے سخت گیر ہندو تنظیموں کے مندر والے دعوؤں کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کرے گی۔ اس خدشے کے مطابق جن متنازع اراضی پر ہندو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ یہ ہندو مذہبی مقامات پر تعمیر کیے گئے ہیں، حکومت مستقبل میں اس بل کو تنظیموں کے دعوؤں کی حمایت میں استعمال کر سکتی ہے۔

وقف ترمیمی بل میں موجود تجاویز اور تبدیلیاں

1- وقف ترمیمی بل 2024 میں پرانے قانون 'وقف ایکٹ 1995' کا نام بدل کر 'یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ، امپاورمنٹ، ایفیشینسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ 1995' رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

2- اس بل کے تحت وقف بورڈز کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اپنی املاک کو ضلع کلکٹر کے پاس رجسٹر کرائیں تاکہ ان کی اصل قیمت اور حیثیت کا تعین کیا جا سکے۔

3- یہ بل "وقف" کو کسی بھی فرد کے وقف کے طور پر بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کم از کم پانچ سال تک اسلام پر پر قائم رہا ہو اور اس کے وقف میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہو کہ وقف علی الاولاد کی صورت میں وراثت میں خواتین کی حق تلفی نہ کی گئی ہو۔

4- اس بل میں بورڈ کے اختیارات سے متعلق سیکشن 40 کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کے تحت بورڈ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ آیا کوئی جائیداد وقف جائیداد ہے یا نہیں۔

5- اس بل میں متوالوں کی سرگرمیوں پر بہتر کنٹرول کے لیے انہیں وقف کے اکاؤنٹس بورڈ کو ایک مرکزی پورٹل کے ذریعے جوڑنے کی سہولت فراہم کرنے، دو ممبران پر مشتمل ڈھانچے کے ساتھ ٹریبونل میں اصلاحات کرنے اور ٹربیونل کے احکامات کے خلاف 90 دنوں کی مخصوص مدت کے اندر ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔

6- اس بل کے مطابق مختلف ریاستی بورڈز کی جانب سے دعوی کردہ متنازع زمینوں کی نئے سرے سے تصدیق بھی کی جائے گی۔

7- اس بل میں بوہرہ اور آغاخانی مسلمانوں کے لیے الگ سے وقف بورڈ کے قیام کا بھی التزام کیا گیا ہے۔

8- ترمیمی بل میں وقف بورڈ کی تشکیل میں تبدیلی کرتے ہوئے ان میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کی بات کہی گئی ہے۔

ہندو اوقاف بورڈ (مدراس انڈومنٹ ایکٹ) میں ترمیم کیوں نہیں؟

مسلم قائدین کا سوال ہے کہ مرکزی حکومت آزادی کے بعد 1951 میں بنے مدراس ہندو مذہبی اور خیراتی اوقاف ایکٹ کو چھوڑ کر صرف مسلم وقف بورڈ میں ہی ترمیم کیوں کرنا چاہتی ہے۔ واضح رہے کہ مدراس ہندو مذہبی اور خیراتی اوقاف ایکٹ 1951 میں کمشنر کی سربراہی میں ہندو مذہبی اور خیراتی اوقاف کا ایک محکمہ بنایا اور عہدیداروں کی درجہ بندی کی گئی۔ اس محکمہ کو ہندو مندروں اور مٹھوں کے سیکولر امور کی نگرانی کا اختیار دیا گیا تھا۔ اس کے تحت موروثی ملازمین کے روایتی نظام کو ختم کر دیا گیا اور مختلف سطحوں پر اتھارٹی، فرائض اور ذمہ داریوں کی وضاحت کرنے والا ایک نیا ڈھانچہ لاگو کیا گیا۔ ملی قائدین کا کہنا ہے کہ مدراس ہندو مذہبی اور خیراتی اوقاف ایکٹ میں موجود التزامات کو درکنار کرتے ہوئے مندروں میں آج بھی موروثی نظام چل رہا ہے، اس کے باجود حکومت اس میں ترمیم کی بات نہیں کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ فی الوقت ملک بھر میں وقف بورڈز کی ملکیت میں 9.4 لاکھ ایکڑ پر پھیلی 8.7 لاکھ جائیدادیں ہیں۔ وقف بورڈ ہندوستان میں تیسرا سب سے بڑا لینڈ بینک رکھتا ہے۔ مگر اسی کے ساتھ وقف املاک کی آمدنی، ان کا استعمال اور ان افادیت بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں ہندوفرقے کے لوگ بھی ہیں شامل

وقف ترمیمی بل کی مخالفت کریں، بھارتی مسلمانوں سے ذاکر نائیک کی اپیل پر کرن رجیجو کا ردعمل

وقف ترمیمی بل 2024 کا واحد مقصد مسلمانوں کی اوقافی املاک کو چھیننا ہے: اسدالدین اویسی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.