لکھنو: لکھنو میں اکبر نگر کے رہائشیوں کا درد ایک طرف اور دو مدرسوں کے بانی کا غم ایک طرف ہے۔ مدرسہ اہل سنت نور الاسلام کے بانی قاری روشن علی قادری نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے سخت مایوسی کا اظہار کیا اور انہوں نے مدرسے کی لائبریری کلاس روم بچوں کے لیے کیے گئے انتظامات کو دکھایا اور کہا کہ یہ چار منزلہ عمارت اور مدرسہ فاطمۃ الزہرا للبنات محمدیہ مسجد کی عمارت تقریبا 10 کروڑ میں تعمیر کروایا تھا یہ عوام نے چندہ دیا تھا اور اسی چندے کے ذریعے 25 سال قبل اس کی بنیاد رکھی تھی لیکن اب جب اس پر بلڈوزر کا انہدامی کاروائی کی جانے والی ہے ایسے میں سخت بے چینی مایوسی اور صدمے کا شکار ہوں۔
لکھنو کے اکبر نگر میں انہدامی کاروائی جاری: مدرسہ اہل سنت نورالاسلام پر بھی بلڈوزر چلنے کا خدشہ - Demolition drive in Akbar Nagar
لکھنو کے اکبر نگر علاقے میں اج چوتھے دن بھی انہدامی کاروائی جاری ہے تقریبا 16 بلڈوزر کے ذریعے لکھنو مونسپل کارپوریشن اور لکھنو ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اس علاقے کو تقریبا میدان میں تبدیل کر دیا، علاقے میں چار مسجدیں ایک لڑکیوں کا مدرسہ جبکہ دو دیگر مدارس بھی زد میں ہیں۔
Published : Jun 13, 2024, 9:31 PM IST
انہوں نے کہا کہ جو طالب علم مدرسے میں رہ کے تعلیم حاصل کر رہے تھے ان کے لیے ہم نے نشاط گنج میں ایک کرائے پر عمارت لی ہے اور وہیں پر انہیں شفٹ کر دیا ہے۔ روشن علی قادری نے بتایا کہ گزشتہ 25 برس سے ملک کے نامور علماء خطبہ شعراء کو ہم نے اپنے یہاں کے جلسے میں پیران طریقت کو بلایا اور بڑی بڑی خانقاہوں کی ذمہ دار ائے لیکن نہ کسی خانقاہ سے اکبر نگر کے لیے اواز بلند ہوئی نہ کسی عالم دین نے ہمارے مدرسے کے تحفظ کے لیے کوئی تحریک چلائی اور نہ ہی کوئی مجھے فون کر کے تسلی دیا۔
قاری روشن علی قادری نے کہا کہ قانونی کاروائی ایک طرف لیکن اخلاقی طور پہ پیران عظام خانقاہ کے ذمہ دار ملک کے نامور علماء شعراء خطبہ جن کو ہم نے بڑے بڑے موٹے نذرانے دیے دعوت کھلائی رہنے سہنے کا انتظامات کیے عزت افزائی کی انہوں نے فون تک نہیں کر کے میری حال و خیریت دریافت کی اس سے مجھے بہت صدمہ ہوا ہے اج میری قوم نے میرا ساتھ نہیں دیا انہوں نے کہا کہ میں نے یہاں کی عوام سے اپیل کیا تھا کہ مدرسے کے ساز و سامان کو باہر کر لیا جائے اور اس میں اپ لوگ مدد کریں لیکن میں تنہا ہوں مدرسے کے ساز و سامان کو کیسے باہر کروں جبکہ مزدور بھی دستیاب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ قوم کے رہنما خانقاہوں کے ذمہ دار جب جلسے میں اتے ہیں تو ایسی تقریریں کرتے ہیں لگتا ہے کہ قوم کے سب سے بڑے مفکر یہی ہیں لیکن اب جب قوم پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ایسے وقت میں اس علاقے میں ان لوگوں کا انا تو دور کی بات ہے ایک فون کر کے تسلی بھی نہیں دے سکتے ہیں انہوں نے بتایا کہ یہاں کی عوام 45 ڈگری درجہ حرارت کی شدت کی گرمی میں بھوکی پیاسی ہے نہ فلاحی تنظیمیں یہاں پر عوام کو کھانے تقسیم کر رہی ہیں نہ کوئی ایک بوتل پانی دے رہا ہے۔
قاری روشن علی قادری نے کہا کہ مجھے غیروں سے کوئی شکایت نہیں ہے ہم بھائی چارہ کے ساتھ رہتے ہیں لیکن ہمیں ملت کے رہنماؤں سے شکایت ہے اکبر نگر کے رہائشوں کو بالکل یتیم چھوڑ دیا گیا ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ ہماری طرف سے ا کر کے انتظامیہ سے کوئی جنگ و جدال کریں لیکن انسانی ہمدردی کے ناطے تسلی دی جا سکتی تھی کھانے پینے کے کچھ سامان بانٹے جا سکتے تھے جھگی جھونپڑی میں رہنے والے افراد کے لیے کچھ راحت کے کام کے جا سکتے تھے لیکن قوم کے لوگ فلاحی تنظیمیں خانقاہ کے ذمہ دار نامور خطبا، علماء شعرا کو کوئی فکر نہیں ہے اور کسی نے یہاں کے حالات کو دریافت تک نہیں کیا حالانکہ یہ بین الاقوامی میڈیا میں خبر شائع ہو رہی ہے اور ایشیا کی سب سے بڑی انہدامی کاروائی ہو رہی ہے اس کے باوجود بھی بہت مایوس کن مرحلہ ہے کہ اکبر نگر کے لوگوں کو یتیم چھوڑ دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ملک کے معروف دینی ادارہ الجامعۃ الاشرفیہ کا یہاں نصاب طلبہ و طالبات کو پڑھایا جاتا تھا محمدی مسجد تھی شب و روز نمازیں ہوتی تھیں غریب بچے اور بچیاں تھی جو دین اور دنیا کی تعلیم حاصل کرتی تھی محسن ملت کمپیوٹر سینٹر تھا جہاں جدید تکنیک سکھایا جاتا تھا لیکن اب یہ سب ختم ہونے کے دہانے پر ہے اور ممکن ہے کہ ایک دو دن میں ان مدرسوں کو ایک میدان میں تبدیل کر دیا جائے گا۔