حیدرآباد (نیوز ڈیسک):اردو ادب میں نسوانی احساسات و جذبات کی ترجمان کے مقام پر فائز پروین شاکر کو کم عمر اور متخصر سی زندگی میں ایسی عزت و شہرت حاصل ہوئی جسے بڑے بڑے شعرا زندگی بھر کی عرق ریزی کے بعد بمشکل حاصل کر پاتے ہیں۔ وہ 24 نومبر 1952 کو پاکستان کے کراچی میں پیدا ہوئیں اور 26 دسمبر 1994 کو محض 42 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ ان کی وفات اسلام آباد میں ایک سڑک حادثے کے نتیجے میں ہوئی۔ انگریزی ادب اور لسانیات میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہارورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر ہونے کے باوجود انہوں نے اردو ادب پر یادگار اور رہنما نقوش چھوڑے۔ پروین شاکر نے محبت، جدائی اور درد و کرب کی یادگار کہانی میں صنف نازک کے جذبات کی ایسی عکاسی کی کہ جس کی کوئی اور نظیر نہیں ملتی۔ ملاحظہ کیجیے پرویشن شاکر کے منتخب اشعار:
وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا
کبھی عرش پر کبھی فرش پر کبھی ان کے در کبھی دربدر
غم عاشقی ترا شکریہ میں کہاں کہاں سے گزر گیا
ریل کی سیٹی میں کیسی ہجر کی تمہید تھی
اس کو رخصت کر کے گھر لوٹے تو اندازہ ھوا
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے