ETV Bharat / literature

تذکرۂ اسلافِ بارہ بنکی: بارہ بنکی کی تاریخ کا ایک روشن باب - FARHAN BARABANKVI BOOKS

فرحان بارہ بنکوی کی کتاب 'تذکرۂ اسلافِ بارہ بنکی' کا رسمِ اجرا گزشتہ دنوں عمل لایا گیا تھا۔

FARHAN BARABANKVI BOOKS
تذکرۂ اسلافِ بارہ بنکی: بارہ بنکی کی تاریخ کا ایک روشن باب (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 20, 2024, 6:01 PM IST

حیدرآباد: زیر مطالعہ کتاب 'تذکرۂ اسلافِ بارہ بنکی' فرحان بارہ بنکوی کی پہلی تصنیف ہے۔ جن کا تعلق ضلع بارہ بنکی سے ہے۔ انہوں نے دارالعلوم دیوبند سے فضیلت اور یوپی مدرسہ بورڈ سے منشی، عالم، کامل اور فاضل کی سند حاصل کی ہے۔ آج کل مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ درس و تدریس کے ساتھ قلمی سلسلہ جاری ہے۔ پانچ سال مسلسل تگ و دو کے بعد جو معلومات فراہم ہو سکیں وہ قلمبند کرکے تذکرہ نگاری کی حق ادا کی۔ مصنف نے اس جد و جہد کا تذکرہ 'سخن ہائے گفتنی' کے صفحات میں تفصیل سے پیش کیا ہے۔

طلب صادق ہو تو خدا کی مدد پہنچ جایا کرتی ہے، مولانا رومی

یہ ایک امر حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کی تاریخ ایک بیش قیمت سرمایہ ہے۔ جو عظمتیں اور بلندیاں ہمارے آبا و اجداد، پیش رو اور متقدمین، اکابرین، صالحین نے قوم کی خدمت اور معاشرے کی تشکیل کے لیے محنت اور جدوجہد سے حاصل کی تھی، اور جنہوں نے دنیا کو ظلمت سے نکال کر علم وحکمت کی روشنی سے آراستہ کیا، وہ ساری عظمتیں اور ان بزرگانِ قوم کی تمام تر کاوشیں، عصرِ حاضر میں فراموش کر دی گئیں ہیں۔

ان اسلاف کا تذکرہ کرنا شبِ ظلمت میں چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ فرحان بارہ بنکوی صاحب نے یہ جذبہ دکھایا اور فہم و ادراک سے کام لے کر یہ کام نہایت ایمانداری سے سر انجام دیا ہے۔ چونکہ تذکرہ نگاری کا فن کافی حد تک عرق ریزی اور محنت طلب کام ہے، پھر بھی مصنف نے شب و روزی کاوشوں سے اسلاف کے شجرۂ نسب اور خانوادے سے لے کر کارناموں تک کا تذکرہ قارئین کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ تصنیف کی سطر سطر اور ورق ورق میں تاریخ کی چاشنی لبریز ہے۔ اسلوبِ تحریر علمی ہے۔ مصنف کا اسلاف کے تئیں احترام اور وطن عزیز سے لگاؤ کس قدر سنجیدہ ہے، کتاب پڑھنے کے بعد اس کا اندازہ قاری خود لگا سکتا ہے۔

کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے۔ حصۂ اول: صوفیا و اولیا، حصہ دوم: علمائے کرام و قاضی القضاۃ، حصۂ سوم: شعرا و ادبا، حصۂ چہارم: ملی، سماجی اور سیاسی شخصیات اور مصلحین کے احوال و اقوال، حالات و واقعات سے متعلق مختصر تعارف، مصنف نے خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے۔

حصۂ اول میں پانچویں صدی ہجری سے لے کر پندرہویں صدی ہجری تک کے ان صوفیا و اولیا کا ذکر ملتا ہے جو یا تو ضلع بارہ بنکی کے باشندے تھے یا وہ تلاشِ روزگار، یا پھر مختلف ادوار میں وسط ایشیا اور دیگر ممالک سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے تھے۔ یہ وہ بزرگ تھے جنہوں نے اپنے علمی و عملی، روحانی، ادبی کمالات، کشف و کرامات اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرکے دنیا میں مثال قائم کی۔ کئی فن حرب کے ماہر تھے۔ ان بزرگانِ ملت میں صفحہ ۳۴؍ پر تحریر کیا گیا پہلا نام سید سالار ساہو غازی رحمۃ اللہ کا ہے جن کا شجرۂ نسب حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جا ملتا ہے۔ جو پانچویں صدی ہجری میں سلطان محمود غزنوی کے امورِ جنگ کے ماہر سپہ سالار تھے۔ قارئین ان کی قدر و منزلت کا اندازہ کتاب پڑھ کر خود لگا سکتے ہیں۔ دوسری شخصیت خواجہ غیاث الدین فتح پوریؒ کی ہے جو بادشاہِ وقت کے صدر جہانی یعنی مذہبی امور کے اعلی افسر تھے۔

شیخ احمد عبدالحق ردولویؒ جن کا نسب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے اور وہ شیخ وقت تھے۔ شیخ اسماعیل بن صفی ردولویؒ کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں کہ شیخ اسماعیل امام ابو حنیفہ کی نسل سے تھے۔ شیخ حسام الدین فتح پوریؒ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منسوب ہیں اور کمال کے صوفی بزرگ تھے۔ حصۂ اول قاری محمد عثمان زید پوریؒ پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ مختلف سلسلوں سے تعلق رکھنے والے متعدد مشائخ کا تذکرہ ملتا ہے۔ جنہوں نے کسبِ فیض حاصل کرکے بلند مقام پایا ہے۔ جن کی خدمات اور کمالات و واقعات کے تذکرہ کو مصنف نے خوبصورتی سے قلمبند کیا کیا ہے۔ کتاب کے حاشیہ میں تمام حوالہ جات درج ہیں۔

مصنف نے کتاب کے حصۂ دوم میں بارو بنکی کے تاریخی اہمیت رکھنے والے علما و قضاۃ سے متعارف کرایا ہے۔ جن میں شیخ شہاب الدین اودھی رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر مولانا ہاشم علی زیدپوریؒ تک لگ بھگ پچپن کے قریب عالموں، قاضی القضاۃ کا مختلف حوالوں سمیت تذکرہ ملتا ہے۔ یہاں میں مولانا محمد الیاس بارہ بنکوی رحمۃ اللہ علیہ کا نام ضرور قلمبند کروں گی، جن کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں کہ:

"آپ کو دختران ملت (خواتین) کی تعلیم و تربیت کی فکر ہوئی تو آپ نے ایک دینی نسواں ادارہ قائم کرنے کا ارادہ کیا اور اس کے انتظام کے لیے، امیر جماعت ثالث مولانا انعام الحسن کاندھلویؒ اور مولانا محمد عمر پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ کی تجویز پر اپنی دختر کو جامعتہ الصالحات مالیگاؤں میں داخل کیا اور تکمیل تعلیم کے بعد آپ نے ۱۹۹۶ء میں ’’جامعۃ البنات الاسلامیہ‘‘ کا آغاز ۲؍ طالبات کے ساتھ خسرو نگر، نئی دہلی میں اپنے گھر سے کیا۔ طالبات کی بڑھتی تعداد اور ضروریات کی بنا پر آپ نے ادارے کی جدید عمارت شاہین باغ، اوکھلا، نئی دہلی میں تعمیر کی اور یہ تعلیمی ادارہ، دہلی کا مشہور اور مثالی تعلیمی ادارہ شمار ہونے لگا۔"

ایک اور عالم دین مولانا تقی امینی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے جو جانکاری فراہم کی ہے وہ قوم و ملت کے لیے سرمایہ ہے۔ جنہوں نے 'علم و عرفان' کے نام سے ایک ادارہ قائم کرنے کے علاوہ عربی اور اردو زبان میں متعدد ضخیم کتابیں لکھنے کے ساتھ ساتھ کئی مقالات قلمبند کیے ہیں۔ مثلاً: فقہ کی تدوین جدید میں موجود حالت کی رعایت، کائنات اور انسان، موجود دور کے مسائل کس طرح حل کیے جائیں، بیمہ کی حقیقت و شرعی حیثیت، جدید دور میں جدید رہنمائی کی ضرورت، مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی، اسلام اور جدید دور کے مسائل، ایک اور تہذیب جدید کی ضرورت، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

تاریخی اعتبار سے ضلع بارہ بنکی شاعروں اور ادیبوں کا مسکن رہا ہے۔ کتاب کے حصۂ سوم میں مصنف نے ضلع بارہ بنکی کے لگ بھگ ستر (۷۰) کے قریب رموزِ فن سے آگاہ قادر الکلام شعرا و ادبا کے نام و نسب اور مجموعات کی فہرست درج کی ہے۔ جن میں سے کئی شعرا کا کلام یا تو ضائع ہوچکا ہے یا پھر کسی اور وجہ سے شائع ہی نہیں ہوسکا ہے۔ اس کے علاوہ کئی شعرا اور ادبا کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے قابل تعریف کام کیا ہے۔ مثال کے طور پر اسرار الحق مجاز، پروفیسر وارث کرمانی شامل ہیں۔ پروفیسر وارث کرمانی صاحب نے مرزا غالب کی شاعری پر کئی طویل مضامین لکھے، جن کو بین الاقوامی سطح پر کافی پزیرائی ملی۔ جیسے: ٹریڈیشن اینڈ ریشنالائزیشن ین غالب وغیرہ۔

مصنف نے کتاب کے آخری یعنی حصۂ چہارم میں ملی، سماجی اور سیاسی شخصیات کی سیاسی اورسماجی کارکردگی کا مختصر تعارف اور فہرست درج کی ہے۔ بہر حال کوئی دنیاوی تحریر مکمل نہیں ہوسکتی ہے۔ تذکرہ نگاری اور تاریخ نویسی پر مبنی یہ کتاب مصنف کی پہلی اور کامیاب کوشش ہے۔ پروف ریڈنگ کی غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس پوری کتاب سے ضلع کی تاریخ سے وابستہ افراد، بالخصوص طالب علم استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔

مجھے امید ہے کہ مستقبل قریب میں فرحان بارہ بنکوی تاریخ نویسی اور فن تذکرہ نگاری میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ موصوف اس نیک کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچا کر نئی تاریخ رقم کرنے میں کامیابی حاصل کریں گے۔ ان شاء اللہ! بشرطیکہ کہ وہ اسی سعی و پیہم، ولولے اور جذبے سے اس صنف کی آبیاری کرتے رہیں، جو جذبہ انہوں نے یہ کتاب لکھتے ہوئے اپنایا ہے۔

یہ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ہے اور نعمانی پرنٹنگ پریس گولا گنج، لکھنو سے شائع ہوا ہے۔ ۳۲۰؍ صفحات پر مشتمل یہ کتاب خوبصورت جلد اور کاغذ کے اعتبار سے بھی ایک معیاری تصنیف ہے۔ جس کی قیمت ۴۵۰؍ روپے مقرر کی گئی ہے۔

مبصرہ: ریحانہ شجر (وزیر باغ، سرینگر، کشمیر)

یہ بھی پڑھیں:

اننت ناگ میں مراز ادبی سنگم کی جانب سے سالانہ کانفرنس منعقد، نامور شعراء ادباء کی شرکت

حیدرآباد: زیر مطالعہ کتاب 'تذکرۂ اسلافِ بارہ بنکی' فرحان بارہ بنکوی کی پہلی تصنیف ہے۔ جن کا تعلق ضلع بارہ بنکی سے ہے۔ انہوں نے دارالعلوم دیوبند سے فضیلت اور یوپی مدرسہ بورڈ سے منشی، عالم، کامل اور فاضل کی سند حاصل کی ہے۔ آج کل مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ درس و تدریس کے ساتھ قلمی سلسلہ جاری ہے۔ پانچ سال مسلسل تگ و دو کے بعد جو معلومات فراہم ہو سکیں وہ قلمبند کرکے تذکرہ نگاری کی حق ادا کی۔ مصنف نے اس جد و جہد کا تذکرہ 'سخن ہائے گفتنی' کے صفحات میں تفصیل سے پیش کیا ہے۔

طلب صادق ہو تو خدا کی مدد پہنچ جایا کرتی ہے، مولانا رومی

یہ ایک امر حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کی تاریخ ایک بیش قیمت سرمایہ ہے۔ جو عظمتیں اور بلندیاں ہمارے آبا و اجداد، پیش رو اور متقدمین، اکابرین، صالحین نے قوم کی خدمت اور معاشرے کی تشکیل کے لیے محنت اور جدوجہد سے حاصل کی تھی، اور جنہوں نے دنیا کو ظلمت سے نکال کر علم وحکمت کی روشنی سے آراستہ کیا، وہ ساری عظمتیں اور ان بزرگانِ قوم کی تمام تر کاوشیں، عصرِ حاضر میں فراموش کر دی گئیں ہیں۔

ان اسلاف کا تذکرہ کرنا شبِ ظلمت میں چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ فرحان بارہ بنکوی صاحب نے یہ جذبہ دکھایا اور فہم و ادراک سے کام لے کر یہ کام نہایت ایمانداری سے سر انجام دیا ہے۔ چونکہ تذکرہ نگاری کا فن کافی حد تک عرق ریزی اور محنت طلب کام ہے، پھر بھی مصنف نے شب و روزی کاوشوں سے اسلاف کے شجرۂ نسب اور خانوادے سے لے کر کارناموں تک کا تذکرہ قارئین کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ تصنیف کی سطر سطر اور ورق ورق میں تاریخ کی چاشنی لبریز ہے۔ اسلوبِ تحریر علمی ہے۔ مصنف کا اسلاف کے تئیں احترام اور وطن عزیز سے لگاؤ کس قدر سنجیدہ ہے، کتاب پڑھنے کے بعد اس کا اندازہ قاری خود لگا سکتا ہے۔

کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے۔ حصۂ اول: صوفیا و اولیا، حصہ دوم: علمائے کرام و قاضی القضاۃ، حصۂ سوم: شعرا و ادبا، حصۂ چہارم: ملی، سماجی اور سیاسی شخصیات اور مصلحین کے احوال و اقوال، حالات و واقعات سے متعلق مختصر تعارف، مصنف نے خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے۔

حصۂ اول میں پانچویں صدی ہجری سے لے کر پندرہویں صدی ہجری تک کے ان صوفیا و اولیا کا ذکر ملتا ہے جو یا تو ضلع بارہ بنکی کے باشندے تھے یا وہ تلاشِ روزگار، یا پھر مختلف ادوار میں وسط ایشیا اور دیگر ممالک سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے تھے۔ یہ وہ بزرگ تھے جنہوں نے اپنے علمی و عملی، روحانی، ادبی کمالات، کشف و کرامات اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرکے دنیا میں مثال قائم کی۔ کئی فن حرب کے ماہر تھے۔ ان بزرگانِ ملت میں صفحہ ۳۴؍ پر تحریر کیا گیا پہلا نام سید سالار ساہو غازی رحمۃ اللہ کا ہے جن کا شجرۂ نسب حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جا ملتا ہے۔ جو پانچویں صدی ہجری میں سلطان محمود غزنوی کے امورِ جنگ کے ماہر سپہ سالار تھے۔ قارئین ان کی قدر و منزلت کا اندازہ کتاب پڑھ کر خود لگا سکتے ہیں۔ دوسری شخصیت خواجہ غیاث الدین فتح پوریؒ کی ہے جو بادشاہِ وقت کے صدر جہانی یعنی مذہبی امور کے اعلی افسر تھے۔

شیخ احمد عبدالحق ردولویؒ جن کا نسب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے اور وہ شیخ وقت تھے۔ شیخ اسماعیل بن صفی ردولویؒ کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں کہ شیخ اسماعیل امام ابو حنیفہ کی نسل سے تھے۔ شیخ حسام الدین فتح پوریؒ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منسوب ہیں اور کمال کے صوفی بزرگ تھے۔ حصۂ اول قاری محمد عثمان زید پوریؒ پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ مختلف سلسلوں سے تعلق رکھنے والے متعدد مشائخ کا تذکرہ ملتا ہے۔ جنہوں نے کسبِ فیض حاصل کرکے بلند مقام پایا ہے۔ جن کی خدمات اور کمالات و واقعات کے تذکرہ کو مصنف نے خوبصورتی سے قلمبند کیا کیا ہے۔ کتاب کے حاشیہ میں تمام حوالہ جات درج ہیں۔

مصنف نے کتاب کے حصۂ دوم میں بارو بنکی کے تاریخی اہمیت رکھنے والے علما و قضاۃ سے متعارف کرایا ہے۔ جن میں شیخ شہاب الدین اودھی رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر مولانا ہاشم علی زیدپوریؒ تک لگ بھگ پچپن کے قریب عالموں، قاضی القضاۃ کا مختلف حوالوں سمیت تذکرہ ملتا ہے۔ یہاں میں مولانا محمد الیاس بارہ بنکوی رحمۃ اللہ علیہ کا نام ضرور قلمبند کروں گی، جن کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں کہ:

"آپ کو دختران ملت (خواتین) کی تعلیم و تربیت کی فکر ہوئی تو آپ نے ایک دینی نسواں ادارہ قائم کرنے کا ارادہ کیا اور اس کے انتظام کے لیے، امیر جماعت ثالث مولانا انعام الحسن کاندھلویؒ اور مولانا محمد عمر پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ کی تجویز پر اپنی دختر کو جامعتہ الصالحات مالیگاؤں میں داخل کیا اور تکمیل تعلیم کے بعد آپ نے ۱۹۹۶ء میں ’’جامعۃ البنات الاسلامیہ‘‘ کا آغاز ۲؍ طالبات کے ساتھ خسرو نگر، نئی دہلی میں اپنے گھر سے کیا۔ طالبات کی بڑھتی تعداد اور ضروریات کی بنا پر آپ نے ادارے کی جدید عمارت شاہین باغ، اوکھلا، نئی دہلی میں تعمیر کی اور یہ تعلیمی ادارہ، دہلی کا مشہور اور مثالی تعلیمی ادارہ شمار ہونے لگا۔"

ایک اور عالم دین مولانا تقی امینی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے جو جانکاری فراہم کی ہے وہ قوم و ملت کے لیے سرمایہ ہے۔ جنہوں نے 'علم و عرفان' کے نام سے ایک ادارہ قائم کرنے کے علاوہ عربی اور اردو زبان میں متعدد ضخیم کتابیں لکھنے کے ساتھ ساتھ کئی مقالات قلمبند کیے ہیں۔ مثلاً: فقہ کی تدوین جدید میں موجود حالت کی رعایت، کائنات اور انسان، موجود دور کے مسائل کس طرح حل کیے جائیں، بیمہ کی حقیقت و شرعی حیثیت، جدید دور میں جدید رہنمائی کی ضرورت، مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی، اسلام اور جدید دور کے مسائل، ایک اور تہذیب جدید کی ضرورت، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

تاریخی اعتبار سے ضلع بارہ بنکی شاعروں اور ادیبوں کا مسکن رہا ہے۔ کتاب کے حصۂ سوم میں مصنف نے ضلع بارہ بنکی کے لگ بھگ ستر (۷۰) کے قریب رموزِ فن سے آگاہ قادر الکلام شعرا و ادبا کے نام و نسب اور مجموعات کی فہرست درج کی ہے۔ جن میں سے کئی شعرا کا کلام یا تو ضائع ہوچکا ہے یا پھر کسی اور وجہ سے شائع ہی نہیں ہوسکا ہے۔ اس کے علاوہ کئی شعرا اور ادبا کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے قابل تعریف کام کیا ہے۔ مثال کے طور پر اسرار الحق مجاز، پروفیسر وارث کرمانی شامل ہیں۔ پروفیسر وارث کرمانی صاحب نے مرزا غالب کی شاعری پر کئی طویل مضامین لکھے، جن کو بین الاقوامی سطح پر کافی پزیرائی ملی۔ جیسے: ٹریڈیشن اینڈ ریشنالائزیشن ین غالب وغیرہ۔

مصنف نے کتاب کے آخری یعنی حصۂ چہارم میں ملی، سماجی اور سیاسی شخصیات کی سیاسی اورسماجی کارکردگی کا مختصر تعارف اور فہرست درج کی ہے۔ بہر حال کوئی دنیاوی تحریر مکمل نہیں ہوسکتی ہے۔ تذکرہ نگاری اور تاریخ نویسی پر مبنی یہ کتاب مصنف کی پہلی اور کامیاب کوشش ہے۔ پروف ریڈنگ کی غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس پوری کتاب سے ضلع کی تاریخ سے وابستہ افراد، بالخصوص طالب علم استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔

مجھے امید ہے کہ مستقبل قریب میں فرحان بارہ بنکوی تاریخ نویسی اور فن تذکرہ نگاری میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ موصوف اس نیک کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچا کر نئی تاریخ رقم کرنے میں کامیابی حاصل کریں گے۔ ان شاء اللہ! بشرطیکہ کہ وہ اسی سعی و پیہم، ولولے اور جذبے سے اس صنف کی آبیاری کرتے رہیں، جو جذبہ انہوں نے یہ کتاب لکھتے ہوئے اپنایا ہے۔

یہ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ہے اور نعمانی پرنٹنگ پریس گولا گنج، لکھنو سے شائع ہوا ہے۔ ۳۲۰؍ صفحات پر مشتمل یہ کتاب خوبصورت جلد اور کاغذ کے اعتبار سے بھی ایک معیاری تصنیف ہے۔ جس کی قیمت ۴۵۰؍ روپے مقرر کی گئی ہے۔

مبصرہ: ریحانہ شجر (وزیر باغ، سرینگر، کشمیر)

یہ بھی پڑھیں:

اننت ناگ میں مراز ادبی سنگم کی جانب سے سالانہ کانفرنس منعقد، نامور شعراء ادباء کی شرکت

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.