اردو

urdu

ETV Bharat / literature

سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی، احمد فراز - اردو اشعار

احمد فراز کا نام پاکستان کے مشہور ترین شعرا میں سرفہرست ہے۔ احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا، وہ 12 جنوری سنہ 1931 کو پاکستان کی ریاست خیبر پختون خواہ کے ضلع کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ 25 اگست 2008 کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ان کا انتقال ہوا۔

سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی، احمد فراز
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی، احمد فراز

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 24, 2024, 8:07 PM IST

حیدرآباد: احمد فراز کی پیدائش (پاکستان) کوہاٹ کے ایک معزز سادات خاندان میں ہوئی۔ شاعری کا فن انہیں والد سے وراثت میں ملا۔ ان کے والد سید محمد شاہ برق فارسی کے ممتاز شاعر تھے۔ احمد فراز نے اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ایم اے کیا لیکن ان کی مادری زبان پشتو تھی۔ باوجود اس کے انہوں نے چار زبانوں پر عبور حاصل کر اردو زبان میں شاعری کی سمت تلاش کی۔

ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ سائنس اور ریاضی میں تعلیم آگے جاری رکھیں لیکن فراز کا فطری میلان ادب و شاعری کی طرف تھا۔ فراز نے کبھی عشق، کبھی انقلاب کبھی دوستی تو کبھی ماضی کے حالات اپنی شاعری میں بیان کیے ہیں۔ فراز عام طور سے رومانی شاعر کے طور پر عوام میں مقبول ہیں، ان کی مشہور زمانہ غزل 'سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں' عام و خاص کی زبان زد ہے۔ آئیے آج ان کی اس غزل کو ملاحظہ کریں۔۔۔

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے

سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی

سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف

سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں

یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے

ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں

سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں

سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی

سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے

سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں

سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی

جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں

سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں

مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے چشم تصور سے دشت امکاں میں

پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے

کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں

کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں

بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا

سو رہروان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت

مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں

رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں

چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے

کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں

کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی

اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں

اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں

فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

ABOUT THE AUTHOR

...view details