لکھنئو: اترپردیش میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق 20 فیصد مسلم آبادی ہے اور ریاست میں تقریبا 100 سے 150 اسمبلی نشستوں پر مسلم وٹرز فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں جبکہ 20 سے 25 پارلیمانی سیٹوں پر مسلم وٹروں کا خاصا اثر رہتا ہے۔ اس کے باوجود مسلم سیاسی جماعتیں اب تک یوپی میں اپنے پیر اس طریقے سے نہیں جما سکیں ہیں جیسے کہ مخصوص ذات کی بنیاد پر بننے والی دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں نے اپنے پیر جمائے ہیں۔
اتر پردیش میں تقریباً 8 فیصد ووٹروں کا تعلق یادو برادری سے ہے جو کہ یہاں او بی سی کمیونٹی کی آبادی کا 20 فیصد ہیں۔ اسی ذات کی بنیاد پر بننے والی سماجوادی پارٹی، مسلم پلس یادو ووٹروں کی بنیاد پر ملائم سنگھ یادو کو تین بار اور اکھلیش یادو کو ایک بار ریاست کا وزیر اعلیٰ بنا چکی ہے۔
اس کے علاوہ پسماندہ ہندو طبقہ کے لیے لڑنے والی بہوجن سماج پارٹی بھی یوپی کی ان بڑی سیاسی پارٹیوں میں سے ایک ہے جس نے مسلم پلس پسماندہ ہندو ووٹروں کی بنیاد پر ریاست میں اقتدار سنبھال چکی ہے۔ انھیں دو مزکورہ پارٹیوں کو یوپی میں مسلم ووٹرز زیادہ پسند کرتے ہیں، لیکن اپنی کسی بھی جماعت کو اس طرح سے ووٹ نہیں کرتے جیسے کی وہ سپا اور بسپا کو کرتے ہیں۔
یوپی میں مسلمانوں کی سیاسی جماعتیں
یوپی کی پہلی مسلم پارٹی (مسلم مجلس پارٹی) کو 4000 ووٹ بھی نہیں ملے تھے۔ مسلم مجلس پارٹی کے بانی ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی نے جنگ آزادی میں بھی نمایا کرادار ادا کیے تھے۔ 1968 میں مسلم مجلس پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم ہوئی۔
اس کا مقصد مسلم اقلیتی برادری کو ان کے حقوق دلانا تھا۔ پارٹی کے قیام کے ایک سال بعد یعنی 1969 میں یوپی میں اسمبلی انتخابات ہوئے۔ مسلم مجلس پارٹی نے دو نشستوں پر الیکشن لڑا تاہم دونوں نشستوں پر پارٹی کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ دونوں نشستوں پر مسلم مجلس پارٹی کو 4000 سے بھی کم ووٹ ملے۔ 1974 میں ڈاکٹر فریدی کی وفات کے ساتھ ہی یہ پارٹی بھی ختم ہو گئی۔
یوپی کی دوسری مسلم پارٹی 33 سال تک الیکشن لڑتی رہی اور صرف ایک سیٹ ہی جیت سکی۔ غلام محمود بنات والا ایک مسلم لیڈر کے طور پر مقبول ہونے لگے۔ انھوں نے انڈین یونین مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ 1974 کے اسمبلی انتخابات میں مسلم لیگ نے 54 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے، لیکن ان میں 43 امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ صرف ایک سیٹ جیت سکے تھے۔
سال 1995 میں بی ایس پی کی حکومت بی جے پی کی حمایت سے بنی۔ یہ وہ دور تھا جب یوپی کے مسلمانوں کا بی ایس پی میں اعتماد بڑھ گیا تھا۔ مایاوتی کو یوپی کی وزیراعلیٰ بنا دیا گیا اور انہوں نے ڈاکٹر مسعود احمد کو وزیر تعلیم بنایا۔
ڈاکٹر مسعود احمد نے وزیر تعلیم رہتے ہوئے اقلیتی برادری کے لیے بہت کام کیا لیکن کچھ عرصے بعد مایاوتی نے ڈاکٹر مسعود کو کابینہ سے برخاست کر دیا۔ جس کے بعد ڈاکٹر مسعود نے سال 2002 میں نیشنل لوکتانترک پارٹی یعنی این ایل پی کی بنیاد رکھی۔
این ایل پی نے 2002 کے اسمبلی انتخابات میں 130 امیدوار کھڑے کئے۔ مسلمانوں کی سیاسی جماعت ہونے کا دعویٰ کرنے والی این ایل پی کے 130 امیدواروں میں سے 126 کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ اس کے بعد 2007 میں ڈاکٹر مسعود احمد نے آر ایل ڈی میں شمولیت اختیار کرلی۔
سال 2001 میں مولانا توقیر رضا نے اتحاد ملت کونسل کے نام سے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ ان کی سیاسی جماعت کو اب تک ایک نشست پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ 2012 میں بریلی کے بھوجی پورہ حلقہ اسمبلی سے شہزل اسلام کامیاب ہوئے تھے۔
دہلی کی جامع مسجد کے امام سید احمد بخاری نے بھی یوپی یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے پارٹی بنا کر 2007 کے یوپی اسمبلی انتخابات میں قسمت آزمائی۔ انہوں نے یوپی کی 54 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے۔ جن میں سے صرف ایک ہی جیت سکا، جب کہ 51 سیٹوں پر ضمانت ضبط ہو گئی۔ اس شرمناک شکست کے بعد احمد بخاری یوپی کی سیاست سے غائب ہو گئے۔