پروفیسر شارب ردولوی کی خدمات کو ہمیشہ یاد کیا جائے گا: ڈاکٹر عمار رضوی (ETV Bharat Urdu) لکھنؤ:دارالحکومت لکھنؤ میں واقع یوپی پریس کلب میں اترپردیش اردو اکیڈمی اور ڈیجیٹیک ایجوکیشنل ٹرسٹ کے زیرِ اہتمام مرحوم پروفیسر شارب ردولوی کی زندگی اور ادبی خدمات کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں ڈاکٹر عمار رضوی (سابق کارگزار وزیر اعلیٰ اتر پردیش) نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی، اس سیمینار میں پروفیسر ریشما پروین نے خصوصی خطاب کیا۔ جب کہ اخیر میں ہدیۂ تشکر محمد توصیف احمد نے ادا کیا۔ سیمینار میں خصوصی خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ریشما پروین نے کہا کہ پروفیسر شارب رودولوی سے اگرچہ میرا خون کا رشتہ نہیں ہے لیکن انہوں نے اپنی بیٹی کی طرح میری پرورش کی ہے اور مجھے جو کچھ سکھایا یہی وجہ ہے کہ آج میں طلبہ کے درمیان بیان کرتی ہوں۔
یہ بھی پڑھیں:
آج اردو کیلئے جاری کاوشوں کے محاسبہ کا دن ہے: پروفیسر شارب ردولوی
انہوں نے کہا کہ پروفیسر شارب ایک طرف جہاں ممتاز ترقی پسند نقاد، ادیب، قلم کار اور شاعر تھے۔ تو دوسری طرف وہ ایک شاندار انسان تھے۔ انہوں نے کہا کہ پروفیسر رودولوی کے تنقید کرنے کا انداز بالکل مختلف تھا۔ وہ کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر لطیف انداز میں تنقید کرتے تھے کہ اس کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پروفیسر شارب کے انتقال کے بعد یوپی پریس کلب میں یوپی اردو اکیڈمی اور ڈیجیٹیک ایجوکیشن ٹرسٹ کی جانب سے پہلا سیمینار منعقد کیا جا رہا ہے یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ پروفیسر شارب کی حیات و خدمات پر آج بات چیت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شارب ردولوی کی زندگی اردو ادب کے لیے وقف تھی۔ انہوں نے اپنی تمام تر کتابیں اردو اکیڈمی کو ہدیہ کر دیا اور خواتین کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے اپنی بیٹی شعاع فاطمہ کے نام ایک انٹر کالج کھولا جہاں سے آج سینکڑوں لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
اس موقع پر ڈاکٹر عمار رضوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پروفیسر شارب ردولوی ہمارے بزرگوں کی طرح تھے۔ شارب بھائی یونیورسٹی میں مجھ سے ایک سال سینئر تھے۔ پروفیسر شارب کو یاد کرتے ہوئے ڈاکٹر عمار رضوی نے شعر پڑھتے ہوئے کہا۔ ہمارے بعد اندھیرا رہے گا محفل میں، چراغ جلاؤ گے روشنی کے لیے۔ پروفیسر شارب ایک شاندار پروفیسر، ایک بہترین شاعر اور ایک بہت ہی شریف انسان تھے۔
انہوں نے کہا کہ شارب بھائی نے ہمیشہ خیال رکھا کہ کبھی کسی کا دل نہ ٹوٹے، وہ جو کہتے تھے وہی کرتے تھے۔ آج کل سیاستدان اور دوسرے کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں۔ شارب بھائی جو کچھ محسوس کرتے وہ کہتے، ان کے الفاظ ہمیشہ وہی ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ آج اردو بولنے والوں کی تعداد 4 کروڑ ہے جو کہ دیگر زبانوں سے بہت زیادہ ہے۔ یہ شارب ردولوی جیسے لوگوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے لکھنؤ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر جاں نثار عالم نے کہا کہ جواہر لعل یونیورسٹی میں پروفیسر شارب کی کلاس میں تعلیم حاصل کیا ہوں یہ ہمارے لیے خوش قسمتی کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے والد انور جلال پوری کے بہت خاص دوست تھے۔ انہوں نے کہا کہ پروفیسر شارب ردولوی ایک بہت ہی حساس اور شاندار شخصیت کے مالک تھے۔
مقالہ نگار محمد رازی نے کہا کہ شارب ردولوی کے ادبی سفر کا آغاز شعرگوئی سے ہوا تھا۔ انہوں نے شاندار غزلیں لکھیں۔ لیکن رفتہ رفتہ تنقید نگاری نے ان کی تخلیق کارگزاریوں کو کم سے کم کر دیا۔ شارب ردولوی کی کتابوں کے ناموں میں مراثی انیس میں ڈرامائی عناصر، گل صد رنگ، جگر فن اور شخصیت، افکار سودا، مطالعۂ ولی، تنقیدی مطالعہ، انتخاب غزلیات سودا، اردو مرثیہ، معاصر اردو تنقید مسائل و میلانات اور تنقیدی مباحث شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے سینکڑوں مضامین اور مقالے بھی لکھے ہیں۔