علی گڑھ: اتر پردیش میں مندر۔مسجد تنازعہ عروج پر ہے۔ حالیہ دنوں میں سنبھل، باغپت، بدایوں، فیروز آباد اور بریلی میں مسجدوں کے مندر ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اب اس فہرست میں علی گڑھ کا نام بھی جڑ گیا ہے۔ یہاں کے تاریخی اپرکوٹ کی جامع مسجد کے مندر ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ آر ٹی آئی کارکن کا کہنا ہے کہ پہلے اس جگہ پر شیو مندر تھا۔ پیر کو اس نے سول جج کی عدالت میں درخواست دائر کی۔ اس کی عرضی قبول کر لی گئی ہے۔ کیس کی سماعت 15 فروری کو ہونی ہے۔
آر ٹی آئی کارکن اور اینٹی کرپشن آرمی لیڈر پنڈت کیشو دیو گوتم کا دعویٰ ہے کہ پہلے اپرکوٹ علاقے میں ہندو راجاؤں کا ایک بڑا قلعہ ہوا کرتا تھا۔ قلعہ کی جگہ جعلی دستاویزات کی بنیاد پر جامع مسجد قائم کی گئی۔ انھوں نے محکمہ آثار قدیمہ اور بلدیہ سے آر ٹی آئی کے ذریعے معلومات حاصل کیں۔ آر ٹی آئی میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ اس جگہ پر پہلے بدھ استوپ، جین مندر یا شیو مندر تھا۔
پنڈت کیشو دیو نے آر ٹی آئی کے ذریعے میونسپل کارپوریشن سے پوچھا تھا کہ جامع مسجد کس کی زمین پر بنی ہے، یہ کب بنی اور مسجد پر کس کا مالکانہ حق ہے۔ اس کے جواب میں میونسپل کارپوریشن نے بتایا کہ مسجد سرکاری زمین پر بنائی گئی ہے اور اس کی تعمیر کے حوالے سے کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ کارپوریشن نے یہ بھی واضح کیا کہ مسجد کسی شخص کی ملکیت نہیں ہے۔
آر ٹی آئی سے ملی اس جانکاری کو بنیاد بنا کر پنڈت کیشو دیو نے سول جج کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے۔ اس درخواست میں انہوں نے مسجد کو ہٹانے اور شیو مندر کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دیگر مقامات کی طرح یہاں کی عدالت نے بھی درخواست کو قبول کر لیا ہے۔ معاملے کی سماعت 15 فروری 2025 مقرر کی گئی ہے۔
یہ تنازعہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یوپی کے دیگر اضلاع میں بھی ایسے ہی معاملوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ سنبھل کی جامع مسجد ہری ہر مندر کی باقیات پر تعمیر ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ یہاں عدالت کے حکم پر سروے بھی کرایا گیا۔ بدایوں اور باغپت میں بھی قدیم مساجد کی جگہ مندر ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
دوسری جانب، سپریم کورٹ نے حال ہی میں نچلی عدالتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ واضح اجازت کے بغیر مندر-مسجد تنازعات میں کوئی بھی سروے آرڈر پاس نہ کریں۔ سپریم کورٹ نے سب سے پہلے عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991 سے متعلق درخواستوں کو نمٹانے پر زور دیا ہے، تاکہ ان تنازعات سے متعلق صورتحال واضح ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیں: