نئی دہلی:جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’آنے والے انتخابات کے تناظر میں ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے مسائل و چیلنجز روز بروز بڑھتے جارہے ہیں۔ فرقہ واریت اور سیاسی تنگ نظری کے شکار افراد ہمارے ملک کی جمہوریت کو تباہ و برباد کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے مسلمانوں میں کافی غم و غصہ اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ لیکن ہمیں ان حالات سے خوفزدہ یا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ اس وقت عزم و ہمت سے کام لیا جائے اور ان چیلنجز پر قابو پانے کے لیے مسلسل کام کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو اس طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے پہلے 1857 کی بغاوت سے لے کر ہندوستان کی آزادی تک، تقسیمِ وطن اور دیگر آزمائشی واقعات تاریخ کا حصہ رہے ہیں اور بفضلہ تعالیٰ مسلمانوں نے ان تمام چیلنجز کا سامنا بحسن و خوبی کیا اور ان پر قابو پایا‘‘۔
یہ بھی پڑھیں:
طویل مدتی حل ہی مسلم مسائل کا سد باب کرسکتا ہے: امیر جماعت اسلامی ہند
Jamaat e Islami Hind on Muslim Issues: امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ طویل مدتی حل ہی مسلم مسائل کا سد باب کرسکتا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے مسلم کمیونٹی کے لیے چھ ایکشن پوائنٹس پر مبنی تجاویز پیش کیے۔
Published : Feb 10, 2024, 1:45 PM IST
امیر جماعت نے مزید کہا کہ ’’ہمیں اپنی طاقت سے آگاہ رہنا چاہیے۔ اس کی جڑیں ہمارے مذہب، اس کی عظیم تعلیمات اور اصولوں میں پیوست ہیں۔ کسی بھی طرح کے جبر و استحصال کے خلاف ایک محافظ کے طور پر کام کرنا ہماری روایت رہی ہے۔ اسی لیے ہمیں آزمائشوں اور فتنوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارے سامنے موجود ان چیلنجوں کا کوئی فوری حل نہیں ہے۔ اس کے لیے طویل مدتی حل تلاش کرنا ہوگا جس کے لیے ہمیں اپنے اثر و رسوخ کے دائرے میں تبدیلی لانی ہوگی۔ اس کے لیے میں کمیونٹی کے لیے چھ ایکشن پوائنٹس تجویز کر رہا ہوں۔
کمیونٹی کے لیے چھ ایکشن پوائنٹس یہ ہیں:
1. ان میں پہلا یہ ہے کہ اپنے ہم وطنوں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کیے جائیں۔ مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں غیر مسلموں میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور اور اسلام کی حقیقی تصویر ان کے سامنے پیش کی جائے۔
2. دوسرا یہ ہے کہ امت مسلمہ کی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا۔ ان کی تعلیم، معیشت اور دیگر کمزوریوں کو دور کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے، بالخصوص ان کے اخلاقی کردار کو بہتر بناکر انہیں دین مبین پر عمل کرنے کا عادی بنایا جائے۔
3. تیسرا یہ ہے کہ ’’ خیر امت‘‘ یعنی بہترین امت ہونے کا کردار ادا کرنا۔
4. چوتھا یہ ہے کہ تمام کمزوروں اور مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے اٹھ کھڑا ہونا۔ ہمیں ہر ظلم و استحصال کے خلاف مزاحمت کرنا ہے لیکن پُرامن طریقے سے یہ کام کیا جائے۔
5. پانچواں یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی طاقت کو تعمیری مقاصد کے لیے استعمال کرنا۔ اپنی ناامیدی، خوف اور مایوسیوں کو ہوا دینے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر اس کا استعمال نہ کیا جائے، بلکہ ملک کو درپیش مسائل سے آگاہی، اسلام کے بارے میں بیداری اور امت کو ہمت و حوصلہ کی فراہمی کے لیے اس کا استعمال ہو۔
6. چھٹی بات یہ ہے کہ آنے والے انتخابات ملک کے لیے بہت اہم ہیں۔ ہمیں پُرامن طریقہ پر ملک کے انصاف پسند لوگوں کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ لوگ الیکشن میں لازمی طور پر شرکت کریں اور اپنی ذمہ داریاں صحیح سمت میں ادا کریں۔ آئیے ہم مسائل سے بھرے اس وقت کو ایک نئے دور میں بدل کر اس کا آغاز کریں اور اپنے غم و غصے کو تعمیری توانائی میں تبدیل کرنے کا عزم کریں۔ یہ ہماری موجودہ حالت کو بہتر و پائیدار بنانے میں معاون و مددگار ثابت ہوگا۔