حیدرآباد: بھارت کی سیاست میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ کے برابر ہے اس کی سب سے بڑی وجہ مسلمان کمیونٹی کا بھارتی سیاست کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کا وفادار بنا رہنا کہا جا سکتا ہے، مسلمانوں نے جن سیاسی جماعتوں پر اعتبار کیا وہ تو ان کا سیاسی استعمال کرتی رہی لیکن کبھی بھی ان مسلم سیاستدانوں نے مسلم سیاسی جماعتوں کو مضبوط کرنے کی کوشش نہیں بلکہ ہمیشہ دوسری بڑی جماعتوں کی وفاداری کا ثبوت دیتے رہے اور ان ہی پارٹیوں کے انتخابی نشان پر جیت کر مسلم کمیونٹی کے لیے کچھ کام کرتے رہے۔
کانگریس پارٹی ہو، یوپی کی سماجودی پارٹی، بہوجن سماجوادی پارٹی، ممتا بنرجی کی ٹی ایم سی ہو یا پھر بہار کی لالو یادو کی آر جے ڈی ان جیسی ایسی بہت سی ریاستی اور قومی سیاسی جماعتیں ہیں جن میں بڑے بڑے مسلم لیڈر رہے ہیں، جن کو ہر کمیونٹی سے پیار اور ووٹ بھی ملتا تھا، جس کی وجہ سے کسی دوسری جماعتوں کے لیڈروں کو ان کے خلاف انتخاب جیتنا ناممکن سا ہوجاتا تھا۔
ایسے ہی چند نام ریاست بہار اور اتردیش سے آتے ہیں جو عوام کے چہیتے تھے، جس کی وجہ سے وہ اپنی اپنی سیٹوں سے متعدد دفعہ الیکشن بھی جیتے لیکن ان کے دامن میں ایسے الزام بھی آئے جو انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے لے گئے۔ ان لیڈروں نے اپنے اوپر لگے داغ کو مٹانے کے لیے قانون اور عدلیہ پر اپنا اعتماد ظاہر کیا اور خود کو قانون کے حوالے بھی کردیا۔
جیل میں یہ لیڈران انڈر ٹرائل تھے اور کئی کیسز میں نچلی عدالتوں نے ان کے خلاف فیصلہ بھی سنا دیا تھا، اس کے باوجود وہ اعلیٰ عدالتوں میں انصاف کے لیے قانونی جنگ لڑتے رہے۔ کیونکہ انھیں پتہ تھا نچلی عدالتیں جو چاہے فیصلہ دے دیں لیکن بھارت کی اعلیٰ عدالتیں انصاف ضرور کریں گی۔ لیکن ان لیڈروں کو یہ علم نہیں تھا کہ انھیں ان اعلیٰ عدالتوں تک پہنچنے سے پہلے ہی فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا یا ان کی جوڈیشیل کسٹڈی میں ہی موت واقع ہوجائے گی۔
ڈاکٹر شہاب الدین (یکم مئی 2021 یعنی 19 رمضان 1442)
ان لیڈروں میں سب سے پہلا نام سیوان کے ڈاکٹر شہاب الدین کا آتا ہے، جو یکم مئی 2021 یعنی 19 رمضان 1442 کو دہلی کے ایک ہسپتال میں اللہ کو پیارے ہوگئے اور ان کی موت کی وجہ کورونا انفیکشن بتایا گیا۔
شہاب الدین تہاڑ جیل میں کسٹڈی میں تھے اور طبیعت زیادہ خراب ہونے پر انہیں دین دیال اپادھیائے اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا لیکن ان کے رشتہ داروں کا الزام تھا کہ ان کا علاج صحیح طریقے سے نہیں ہورہا ہے۔ ان کے رشتہ داروں نے بہترعلاج کے لیے دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اسپتال میں بہتر علاج کے لیے ہدایت بھی دی لیکن انتظامیہ نے انہیں بہترعلاج کے لیے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف انڈین میڈیکل سائنس (ایمس) میں یا رام منوہر لوہیا اسپتال میں داخل نہیں کرایا، بالآخر ان کی کورونا سے موت واقع ہوگئی۔
اس کے بعد لواحقین نے ان کی تدفین کے لیے میت سیوان لانے کے لیے حکومت سے مطالبہ کیا تھا تاہم کورونا کی گائیڈ لائنز کی وجہ سے لاش بہار نہیں لائی جاسکی، جس کی وجہ سے انکی تدفین دہلی کے ہی ایک قبرستان میں کی گئی۔
شہاب الدین 10 مئی 1967 کو سیوان ضلع کے پرتاپ پور میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تا اعلیٰ تعلیم بہار میں ہی ہوئی۔ انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی، ان کا ایک بیٹا اسامہ شہاب اور دو بیٹیاں ہیں۔ ڈاکٹر شہاب الدین 1990 میں محض 23 سال کی کم عمری میں بہار قانون ساز اسمبلی کے رکن بن گئے تھے۔