دیر البلاح: جنگ زدہ فلسطین کی غزہ پٹی کی خواتین کے لیے وسیع و عریض مہاجر کیمپوں میں رہنا اسلئے بھی باعث تذلیل ہے کیونکہ یہ خواتین اپنی نجی زندگی کے معاملات سے نمٹنے کیلئے سخت جدوجہد کررہی ہیں۔ ان خواتین کو معمولی لباس پہننے کے لیے بھی جدوجہد کرنا پڑتی ہے کیونکہ خیموں میں ارد گرد لوگوں کی کافی بھیڑ رہتی ہے ۔ نہ صرف انکے خاندان کے اپنے لوگ بشمول مرد انکے ارد گرد رہتے ہیں بلکہ اجنبی لوگ بھی انکے پڑوس میں ہی خیمہ زن ہیں۔
جو خواتین ماہواری کے دشوار مرحلے سے گزرتی ہیں انہیں متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ماہواری کی مصنوعات تک انکی رسائی محدود ہے، اس لیے وہ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کے لیے چادریں یا پرانے کپڑوں کو کاٹ دیتی ہیں۔ عارضی بیت الخلاء کے نام پر ریت میں بنایا گیا ایک گڑھا ہے جس کے چاروں طرف ایک رسی سے لٹکتی ہوئی چادریں ہوتی ہیں۔ یہ بیت الخلا دوسرے سب لوگ باری باری استعمال کرتے ہیں۔ اعلیٰ حمامی خود کو ایک شال سے ہر وقت ڈھانپ رہی ہے۔ یہ ایک سیاہ چادر ہے جو وہ صرف نماز کیلئے استعمال کرتی تھیں لیکن وہ اب اسے مسلسل پہن رہی ہیں تاکہ نامحروں کی نظروں سے پردہ کرسکے۔
اب ہماری ساری زندگی نماز کیلئے مخصوص لباس میں گزر رہی ہے، یہاں تک کہ ہم بازار تک بھی اسے پہنتے ہیں۔ تین بچوں کی ماں اعلیٰ حمامی نے بتایا، انہوں نے آہ بھر کر کہا کہ "عزت ختم ہو گئی ہے۔" عام طور پر، وہ شال صرف اس وقت پہنتی تھی جب وہ اپنی روزانہ کی نماز پڑھتی تھیں۔ لیکن آس پاس بہت سارے مردوں کے ساتھ رہتے ہوئے وہ اسے ہر وقت لگاتی ہیں یہاں تک کہ وہ سونے میں بھی یہی کپڑے پہنتی ہیں۔ اسلئے کہ رات کے دوران اگر کوئی اسرائیلی حملہ ہو تو انہیں بھاگنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔
غزہ میں اسرائیل کے 14 ماہ سے جاری حملے میں 23 لاکھ فلسطینیوں میں سے 90 فیصد سے زیادہ اپنے گھروں سے باہر آگئے ہیں۔ ان میں سے سیکڑوں ہزاروں اب بڑے علاقوں میں ایک دوسرے کے قریب خیموں میں رہ رہے ہیں۔ سیوریج کا پانی گلیوں میں بہہ جاتا ہے، اور خوراک اور پانی کا حصول مشکل ہے۔ موسم سرما شروع ہو رہا ہے۔
بے گھر خواتین اکثر ہفتوں تک ایک ہی قسم کے کپڑے پہنتی ہیں کیونکہ جب انہوں نے نقل مکانی کی اس وقت انہوں نے سارے کپڑے اور دیگر ساز و سامان گھروں میں ہی چھوڑ دیا۔ کیمپوں میں ہر کوئی روزانہ خوراک، صاف پانی اور لکڑی کی تلاش کرتا ہے۔ خواتین کو قلیل کپڑوں میں ایسا لگتا ہے کہ وہ بے حجاب اور بے پردہ ہوگئی ہیں۔ غزہ ہمیشہ سے ایک قدامت پسند معاشرہ رہا ہے۔ زیادہ تر خواتین، ان مردوں کی موجودگی میں حجاب اوڑھتی ہیں یا سر پر اسکارف پہنتی ہیں جوانکے خاندان سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔
غزہ کے معاشرے میں خواتین کی صحت کے معاملات جیسے حمل، حیض اور مانع حمل کی تدابیر پر عام طور پر بات نہیں کی جاتی ہے۔ حمامی، جس کا شال پھٹا ہوا ہے اور اس پر چولھے کی راکھ سے دھبے پڑگئے ہیں، کہتی ہیں کہ اس سے پہلے انکے پاس اپنی چھت تھی جو اب موجود نہیں ہے۔ انکے مطابق خواتین کی ساری زندگی بے نقاب ہوگئی ہے، اب خواتین کے لیے کوئی رازداری نہیں ہے۔
عام ضروریات کو پورا کرنا بھی مشکل:
بے گھر ہونے والی دو بچوں کی ماں وفا نصر اللہ کہتی ہیں کہ کیمپوں میں گزرنے والی زندگی کی وجہ سے معمولی ضرورتوں کو پورا کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے، جیسے کہ پیریڈ پیڈ حاصل کرنا، جو انکی استطاعت سے باہر ہے۔ وفا نے کپڑے کے ٹکڑوں اور یہاں تک کہ ڈائپر کا بھی استعمال کرنے کی کوشش کی، جس کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔ باتھ روم کے نام پر انکے پاس کھلے میدان میں ایک گھڑا کھودا گیا ہے جسے چاروں طرف کمبلوں سے لپیٹا گیا ہے جو لاٹھیوں کے سہارے آویزاں ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں 690,000 سے زیادہ خواتین اور لڑکیوں کو ماہواری سے متعلق حفظان صحت سمیت مصنوعات کے ساتھ ساتھ صاف پانی اور بیت الخلاء کی ضرورت ہے۔ امدادی کارکن اس ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ اسرائیل، کراسنگ سے آگے سپلائی کو جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ حفظان صحت کی کٹس کا ذخیرہ ختم ہو چکا ہے، اور قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ بہت سی خواتین کو یہ انتخاب کرنا پڑتا ہے کہ وہ پیڈ خریدیں یا کھانے پینے کی چیزیں۔
کیمپ میں رہنے والی تین بچوں کی ماں، دعا ہیلس نے کہا کہ اس نے ماہواری کے پیڈ استعمال کرنے کے لیے اپنے پرانے کپڑے پھاڑ لیے ہیں۔ انکے مطابق جہاں بھی ہمیں کپڑا ملتا ہے، ہم اسے پھاڑ کر استعمال کرتے ہیں۔ پیڈ کے ایک پیکٹ کی قیمت 45 شیکلہے جو 12 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پورے خیمے میں کسی کے پاس مشکل سے پانچ شیکل بھی ہوں گے۔
غزہ میں سرگرم انسانی حقوق گروپ انیرا کا کہنا ہے کہ کچھ خواتین اپنی ماہواری کو روکنے کے لیے انسداد حمل کی گولیاں استعمال کرتی ہیں۔ دوسروں کو بار بار نقل مکانی کے تناؤ اور صدمے کی وجہ سے ماہواری کے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ غزہ میں خواتین کے امور کے مرکز کی ڈائریکٹر امل صیام نے کہا کہ خوفناک حالات خواتین کی صحت کے لیے حقیقی خطرات کا باعث ہیں۔ یہ مرکز خواتین کو حفظان صحت سے متعلق سامان فراہم کرتا ہے اور ان کے تجربات کے بارے میں سروے کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ خواتین نے 40 دنوں سے کپڑے نہیں بدلی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ اور دیسی ساختہ کپڑے کے پیڈ جلد کی بیماریاں، تولیدی صحت اور نفسیاتی حالات سے متعلق بیماریاں "یقینی طور پر پیدا کریں گے"۔ صیام نے کہا کہ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ غزہ میں ایک عورت کیسا محسوس کرتی ہوگی جو حفظان صحت اور ماہواری سے متعلق صورتحال کو اپنے قابو میں رکھنے کی پوزیشن میں نہ ہو۔
'سب کچھ تباہ ہو گیا':
ہیلس کو ماضیٔ قریب کا وہ وقت یاد آتا ہے جب انہیں اپنے عورت ہونے پر خوشی محسوس ہوتی تھی اور کبھی یہ وجود بوجھ نہیں لگتا تھا لیکن خواتین اب ہر چیز سے محروم ہیں، نہ کپڑے، نہ باتھ روم۔ ان کی نفسیات تباہ ہو چکی ہے، دعا ہیلس نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔
صیام کے مطابق انکے مرکز نے ایسے کیسز کا سراغ لگایا ہے جہاں لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے کر دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے خاندان کے خیموں کے گھٹن والے ماحول سے بچ سکیں۔ جنگ کا لفظ ہر معنی میں ایک انسانی تباہی کا باعث ہوتا ہے اور اس تباہی و بربادی کی سب سے بڑی قیمت خواتین ادا کرتی ہیں۔
غزہ علاقے کی وزارت صحت کے مطابق، غزہ میں اسرائیل کے حملے میں 45,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔ یہ اعداد و شمار مجموعی ہیں جن میں مزاحمت کاروں اور عام شہریوں کی تفریق نہیں ہے۔ اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے جواب میں اپنا حملہ شروع کیا، جس میں عسکریت پسندوں نے تقریباً 1,200 افراد کو ہلاک کیا اور 250 کے قریب دیگر افراد کو اغوا کر لیا۔
شدید بمباری کے نتیجے میں غزہ کے بڑے شہروں اور قصبوں کے زمین بوس ہونے کے بعد، خواتین اپنے خیموں میں اپنی محدود زندگی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ حمامی اپنے چھوٹے خیمے میں رہائش پزیر ہیں جہاں وہ چند قدم ہی چل پاتی ہیں۔ وہ اسے اپنے خاندان کے 13 دیگر لوگوں کے ساتھ شیئر کرتی ہے۔ جنگ کے دوران اس نے ایک بیٹے احمد کو جنم دیا جو اب 8 ماہ کا ہے۔
اس کی اور اس کے دو دیگر بچوں کی دیکھ بھال کرنے، اپنے خاندان کی لانڈری دھونے، کھانا پکانے اور پانی کے لیے لائن میں انتظار کرنے کے درمیان، وہ کہتی ہیں کہ اپنی دیکھ بھال کے لیے وقت نہیں ہے۔ اس کے پاس کچھ چیزیں ہیں جو اسے یاد دلاتی ہیں کہ اس کی زندگی کیا تھی، بشمول ایک پاؤڈر کمپیکٹ جو وہ اپنے ساتھ لائی تھیں جب وہ غزہ شہر کے شاتی کیمپ میں اپنے گھر سے بھاگی تھیں۔
میک اپ کا سامان اب پک گیا ہے اور ٹوٹ رہا ہے۔ پچھلے ایک سال کے دوران انہیں چار بار نقل مکانی کے بعد وہ ایک چھوٹے سے میک اپ آئینے کو سنبھالنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ یہ آئینہ اب دو ٹکڑوں میں ٹوٹ گیا ہے لیکن وہ ان ٹکڑوں کو جوڑ کر بسا اوقات اپنا عکس دیکھ لیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پہلے انکے پاس ایک پوری الماری تھی جس میں وہ سب کچھ تھا جس کی میں خواہش کر سکتی تھی۔
ہم ہر روز سیر کے لیے نکلتے تھے، شادی کی تقریبات میں جاتے تھے، پارکوں میں، مالز میں جاتے تھے، ہر وہ چیز خریدتے تھے جسکی دل میں خواہش پیدا ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ خواتین اس جنگ میں اپنا وجود اور سب کچھ کھو بیٹھی ہیں۔ جنگ سے پہلے عورتیں اپنا خیال رکھتی تھیں لیکن اب سب کچھ تباہ ہو چکا ہے۔