ETV Bharat / opinion

مہاراشٹر کا انتخابی نتیجہ پوار اور ٹھاکرے کے لیے بقا کا مسئلہ

مہاراشٹر کے انتخابی نتائج ادھو ٹھاکرے اور خاص طور سے شرد پوار کے لیے ایک دھچکا ہیں، جو سیاسی کرئیر کے آخری پڑاؤ پر ہیں۔

مہاراشٹر کا انتخابی نتیجہ پوار اور ٹھاکرے کے لیے بقا کا مسئلہ
مہاراشٹر کا انتخابی نتیجہ پوار اور ٹھاکرے کے لیے بقا کا مسئلہ (Photo: ANI)
author img

By Bilal Bhat

Published : Nov 24, 2024, 12:16 PM IST

حیدرآباد: جمہوریت میں اچھی حکمرانی کے لیے اپوزیشن کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے اور یہ دن بدن کم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال مہاراشٹر اسمبلی الیکشن کا نتیجہ ہے، جہاں اپوزیشن کی بقا خطرے میں ہے۔ اس سے آنے والے وقت میں مہاراشٹر کی مقننہ میں اپوزیشن کی آواز ایوان دب کر رہ جائے گی۔

مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات کے نتائج نے بہت سے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے، خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے توقع کی تھی کہ NCP (SP) اور شیو سینا (UBT) کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ اہم ہندسوں کو عبور کریں گی اور مقننہ میں اپنی آواز کو باوزن بنا سکیں گی۔

2019 کے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں غیر منقسم این سی پی نے 54 سیٹوں پر جیت درج کی جب کہ غیر منقسم شیو سینا 56 نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ اس الیکشن میں غیر منقسم شیو سینا نے بی جے پی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا، جب کہ غیر منقسم این سی پی نے کانگریس کے ساتھ مل کر انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔

مہاراشٹر اسمبلی انتخابات 2024 میں الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق شیوسینا نے 57 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے، جب کہ این سی پی نے 41 سیٹوں پر جیت درج کی ہے۔ اس کے برعکس شیو سینا (یو بی ٹی) اور این سی پی (ایس پی) کی کارکردگی خراب رہی ہے۔ این سی پی (ایس پی) نے 10 سیٹیں جیتی ہیں، جب کہ شیو سینا (یو بی ٹی) نے 20 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔

اجیت پوار کی این سی پی، شرد پوار کی این سی پی سے الگ ہو کر سینئر پوار کو پیچھے چھوڑ کر بہت آگے نکل گئی۔ یہ تبدیلی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب وہ اپنے سیاسی کرئیر کے آخری پڑاؤ پر ہیں۔ ان کی سیاسی میراث خطرے میں ہے۔ اپنی بیٹی سپریا سولے سے پیار کی وجہ سے سینئر پوار کو ان کی قیادت والی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے بکھراؤ کی صورت میں بھاری قیمت چکانی پڑی۔

اسی طرح شیو سینا کے ادھو ٹھاکرے ایکناتھ شندے کو شیو سینا کے وجود کو خطرے میں ڈالنے کے بجائے ایک باعزت مقام دے کر مطمئن رکھ سکتے تھے، جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے۔ وہ اپنے کزن راج ٹھاکرے کے ساتھ بھی ڈیل کر سکتے تھے۔ اگرچہ مذاکرات کاروں نے ادھو اور راج کے درمیان ثالثی کرانے کی کوشش کی، لیکن بائیولوجی نے کھیل بگاڑنے کا کام کیا اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا۔ اب لوگوں نے ایکناتھ شندے کو جو مینڈیٹ دیا ہے، اس نے اس نہ ختم ہونے والی لڑائی کا آسانی سے فیصلہ کر دیا کیونکہ بالاصاحب ٹھاکرے کی شیوسینا پر شندے کے ساتھ ان کے بیٹے ادھو کا بھی دعویٰ تھا۔

سینئر پوار، ادھو، اور کانگریس کے لیڈروں کو 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد کچھ امید تھی، لیکن ان کی خوشامد پسندی ان کے اندرونی جھگڑوں سے ظاہر ہوگئی جس نے ووٹروں کی عدم اطمینان میں اضافہ کیا اور بی جے پی کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا۔

ان نتائج نے نہ صرف ادھو یا شرد کو خطرے میں ڈال دیا بلکہ اجیت کی قیادت والی این سی پی اور ایکناتھ کی قیادت والی شیو سینا کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے، جن کی جیتی ہوئی سیٹوں کی تعداد بہت کم ہے اور آنے والے دنوں حکومت کی تشکیل کے لیے بی جے پی سے مول بھاؤ کے دوران ان کی بات مشکل سے سنی جائے گی۔

انتخابی نتائج کے بعد وراثت کی تعریف بدلتی دکھائی دے رہی ہے اور لوگوں کے پاس وراثت کو جانچنے کا اپنا طریقہ ہے۔ مہاراشٹرا ایک بہترین مثال ہے جہاں لوگوں نے مہایوتی کو حکومت کرنے کا مینڈیٹ دے کر ادھو کے مقابلے ایکناتھ شندے کا انتخاب کیا۔ اسی طرح اجیت پوار کو شرد پوار پر ترجیح دی۔ ان نتائج نے مہاراشٹر کی سیاسی محرکات کو بدل دیا ہے جہاں ریاستی اسمبلی پر علاقائی پارٹیوں کا غلبہ ہوگا۔

انتخابی مہم کے دوران مقامی مسائل کی گونج پارٹیوں اور امیدواروں کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوا ہوگا۔ اسی کے ساتھ اس بار ہندو قوم پرستی نے مراٹھا علامت پر فتح حاصل کی۔ جب کہ پہلے مہاراشٹر نے ہمیشہ مراٹھوں سے جڑے مسائل پر جیت حاصل کی ہے۔ شرد پوار 46 سال پہلے مہاراشٹر کے سب سے کم عمر چیف منسٹر بنے تو ووٹرز کے سامنے مقامی مسائل پر سیاست کرتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے کانگریس سے الگ ہوکر این سی پی بنا لی۔

اسی طرح ریاست میں شیوسینا کا عروج مراٹھا فخر اور اس کے ارد گرد کے مسائل کی وجہ سے تھا۔ ماضی میں قومی پارٹیاں مہاراشٹرا اسمبلی میں جگہ بنانے کے لیے علاقائی راستہ اختیار کرتی تھیں۔ اس بار معاملہ الگ تھا، اشتعال انگیز نعرے واضح طور پر علاقائی پارٹیوں کی تقسیم کا نتیجہ تھے۔

انتخابی نتائج کے اعلان تک علاقائی جماعتوں کا جو کچھ بھی کہنا ہو مگر انہیں تابع رہنا پڑے گا، جیسا کہ بی جے پی لیڈر دیویندر فڈنویس کی باڈی لینگویج سے ظاہر تھا جب انہوں نے نتائج کے فوراً بعد پارٹی کارکنوں سے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے مرکزی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ نظریات کی جنگ تھی۔' وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے دہرایا کہ 'مودی فیکٹر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا'۔

لوگوں نے وکاس (ترقی) اور لاڈلی بہنا یوجنا کو ووٹ دیا۔ زیادہ تر سیاستدانوں اور خاص طور پر بی جے پی ممبران نے اپنے بیان میں یہی کہا۔ مہاراشٹر کے مغربی حصے کو چھوڑ کر، ریاست کے دیگر تمام علاقوں نے بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کے لیے زبردست حمایت کا مظاہرہ کیا جسے وہ مہاوتی کہتے ہیں۔ یہ کلین سویپ تھا اور مہایوتی کے لیے بھاری اکثریت تھی۔

سابق وزیر اعلیٰ پرتھوی راج چوان، آٹھ بار ایم ایل اے رہنے والے بالاصاحب تھورٹ اور یشومتی ٹھاکر کی شکست کے بعد اپوزیشن کو اسمبلی میں نمائندگی کے لیے ایک چہرہ تلاش کرنا پڑے گا۔ اپوزیشن جماعتوں میں سے کوئی بھی کم از کم 29 نشستوں کا ہندسہ نہیں پا سکا جو کہ قانون سازی کے قواعد کے مطابق اپوزیشن کے عہدے کے لیے مطلوب ہے۔

اپوزیشن پارٹیاں اگر اگلے پانچ سال تک زندہ رہنا اور آئندہ واپسی کرنا چاہتی ہیں تو انہیں ایک ایسا ایجنڈا بنانا پڑے گا جس سے لوگ جڑ سکیں۔ ایسا کرنے سے پہلے انہیں آنے والے برسوں میں سیاست سے ریٹائر ہونے والی موجودہ قیادت کا کوئی ٹھوس نعم البدل تلاش کرنا ہوگا۔ اور جانشین کے حریف کی طرح باوزن ہونے صورت میں ہی بقا ممکن ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: مہاراشٹر نے کانگریس کے جھوٹ کو مسترد کر دیا، خاندانی نظام کو شکست دی: وزیراعظم مودی

مہاراشٹرا اسمبلی کےلئے 9 اور جھارکھنڈ میں 4 مسلم ارکان منتخب

جھارکھنڈ پر انڈیا اتحاد کا قبضہ، تمام 81 سیٹوں کے نتائج جاری، جانیے کون کہاں سے رکن اسمبلی منتخب ہوا؟

حیدرآباد: جمہوریت میں اچھی حکمرانی کے لیے اپوزیشن کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے اور یہ دن بدن کم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال مہاراشٹر اسمبلی الیکشن کا نتیجہ ہے، جہاں اپوزیشن کی بقا خطرے میں ہے۔ اس سے آنے والے وقت میں مہاراشٹر کی مقننہ میں اپوزیشن کی آواز ایوان دب کر رہ جائے گی۔

مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات کے نتائج نے بہت سے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے، خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے توقع کی تھی کہ NCP (SP) اور شیو سینا (UBT) کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ اہم ہندسوں کو عبور کریں گی اور مقننہ میں اپنی آواز کو باوزن بنا سکیں گی۔

2019 کے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں غیر منقسم این سی پی نے 54 سیٹوں پر جیت درج کی جب کہ غیر منقسم شیو سینا 56 نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ اس الیکشن میں غیر منقسم شیو سینا نے بی جے پی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا، جب کہ غیر منقسم این سی پی نے کانگریس کے ساتھ مل کر انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔

مہاراشٹر اسمبلی انتخابات 2024 میں الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق شیوسینا نے 57 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے، جب کہ این سی پی نے 41 سیٹوں پر جیت درج کی ہے۔ اس کے برعکس شیو سینا (یو بی ٹی) اور این سی پی (ایس پی) کی کارکردگی خراب رہی ہے۔ این سی پی (ایس پی) نے 10 سیٹیں جیتی ہیں، جب کہ شیو سینا (یو بی ٹی) نے 20 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔

اجیت پوار کی این سی پی، شرد پوار کی این سی پی سے الگ ہو کر سینئر پوار کو پیچھے چھوڑ کر بہت آگے نکل گئی۔ یہ تبدیلی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب وہ اپنے سیاسی کرئیر کے آخری پڑاؤ پر ہیں۔ ان کی سیاسی میراث خطرے میں ہے۔ اپنی بیٹی سپریا سولے سے پیار کی وجہ سے سینئر پوار کو ان کی قیادت والی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے بکھراؤ کی صورت میں بھاری قیمت چکانی پڑی۔

اسی طرح شیو سینا کے ادھو ٹھاکرے ایکناتھ شندے کو شیو سینا کے وجود کو خطرے میں ڈالنے کے بجائے ایک باعزت مقام دے کر مطمئن رکھ سکتے تھے، جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے۔ وہ اپنے کزن راج ٹھاکرے کے ساتھ بھی ڈیل کر سکتے تھے۔ اگرچہ مذاکرات کاروں نے ادھو اور راج کے درمیان ثالثی کرانے کی کوشش کی، لیکن بائیولوجی نے کھیل بگاڑنے کا کام کیا اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا۔ اب لوگوں نے ایکناتھ شندے کو جو مینڈیٹ دیا ہے، اس نے اس نہ ختم ہونے والی لڑائی کا آسانی سے فیصلہ کر دیا کیونکہ بالاصاحب ٹھاکرے کی شیوسینا پر شندے کے ساتھ ان کے بیٹے ادھو کا بھی دعویٰ تھا۔

سینئر پوار، ادھو، اور کانگریس کے لیڈروں کو 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد کچھ امید تھی، لیکن ان کی خوشامد پسندی ان کے اندرونی جھگڑوں سے ظاہر ہوگئی جس نے ووٹروں کی عدم اطمینان میں اضافہ کیا اور بی جے پی کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا۔

ان نتائج نے نہ صرف ادھو یا شرد کو خطرے میں ڈال دیا بلکہ اجیت کی قیادت والی این سی پی اور ایکناتھ کی قیادت والی شیو سینا کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے، جن کی جیتی ہوئی سیٹوں کی تعداد بہت کم ہے اور آنے والے دنوں حکومت کی تشکیل کے لیے بی جے پی سے مول بھاؤ کے دوران ان کی بات مشکل سے سنی جائے گی۔

انتخابی نتائج کے بعد وراثت کی تعریف بدلتی دکھائی دے رہی ہے اور لوگوں کے پاس وراثت کو جانچنے کا اپنا طریقہ ہے۔ مہاراشٹرا ایک بہترین مثال ہے جہاں لوگوں نے مہایوتی کو حکومت کرنے کا مینڈیٹ دے کر ادھو کے مقابلے ایکناتھ شندے کا انتخاب کیا۔ اسی طرح اجیت پوار کو شرد پوار پر ترجیح دی۔ ان نتائج نے مہاراشٹر کی سیاسی محرکات کو بدل دیا ہے جہاں ریاستی اسمبلی پر علاقائی پارٹیوں کا غلبہ ہوگا۔

انتخابی مہم کے دوران مقامی مسائل کی گونج پارٹیوں اور امیدواروں کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوا ہوگا۔ اسی کے ساتھ اس بار ہندو قوم پرستی نے مراٹھا علامت پر فتح حاصل کی۔ جب کہ پہلے مہاراشٹر نے ہمیشہ مراٹھوں سے جڑے مسائل پر جیت حاصل کی ہے۔ شرد پوار 46 سال پہلے مہاراشٹر کے سب سے کم عمر چیف منسٹر بنے تو ووٹرز کے سامنے مقامی مسائل پر سیاست کرتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے کانگریس سے الگ ہوکر این سی پی بنا لی۔

اسی طرح ریاست میں شیوسینا کا عروج مراٹھا فخر اور اس کے ارد گرد کے مسائل کی وجہ سے تھا۔ ماضی میں قومی پارٹیاں مہاراشٹرا اسمبلی میں جگہ بنانے کے لیے علاقائی راستہ اختیار کرتی تھیں۔ اس بار معاملہ الگ تھا، اشتعال انگیز نعرے واضح طور پر علاقائی پارٹیوں کی تقسیم کا نتیجہ تھے۔

انتخابی نتائج کے اعلان تک علاقائی جماعتوں کا جو کچھ بھی کہنا ہو مگر انہیں تابع رہنا پڑے گا، جیسا کہ بی جے پی لیڈر دیویندر فڈنویس کی باڈی لینگویج سے ظاہر تھا جب انہوں نے نتائج کے فوراً بعد پارٹی کارکنوں سے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے مرکزی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ نظریات کی جنگ تھی۔' وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے دہرایا کہ 'مودی فیکٹر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا'۔

لوگوں نے وکاس (ترقی) اور لاڈلی بہنا یوجنا کو ووٹ دیا۔ زیادہ تر سیاستدانوں اور خاص طور پر بی جے پی ممبران نے اپنے بیان میں یہی کہا۔ مہاراشٹر کے مغربی حصے کو چھوڑ کر، ریاست کے دیگر تمام علاقوں نے بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کے لیے زبردست حمایت کا مظاہرہ کیا جسے وہ مہاوتی کہتے ہیں۔ یہ کلین سویپ تھا اور مہایوتی کے لیے بھاری اکثریت تھی۔

سابق وزیر اعلیٰ پرتھوی راج چوان، آٹھ بار ایم ایل اے رہنے والے بالاصاحب تھورٹ اور یشومتی ٹھاکر کی شکست کے بعد اپوزیشن کو اسمبلی میں نمائندگی کے لیے ایک چہرہ تلاش کرنا پڑے گا۔ اپوزیشن جماعتوں میں سے کوئی بھی کم از کم 29 نشستوں کا ہندسہ نہیں پا سکا جو کہ قانون سازی کے قواعد کے مطابق اپوزیشن کے عہدے کے لیے مطلوب ہے۔

اپوزیشن پارٹیاں اگر اگلے پانچ سال تک زندہ رہنا اور آئندہ واپسی کرنا چاہتی ہیں تو انہیں ایک ایسا ایجنڈا بنانا پڑے گا جس سے لوگ جڑ سکیں۔ ایسا کرنے سے پہلے انہیں آنے والے برسوں میں سیاست سے ریٹائر ہونے والی موجودہ قیادت کا کوئی ٹھوس نعم البدل تلاش کرنا ہوگا۔ اور جانشین کے حریف کی طرح باوزن ہونے صورت میں ہی بقا ممکن ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: مہاراشٹر نے کانگریس کے جھوٹ کو مسترد کر دیا، خاندانی نظام کو شکست دی: وزیراعظم مودی

مہاراشٹرا اسمبلی کےلئے 9 اور جھارکھنڈ میں 4 مسلم ارکان منتخب

جھارکھنڈ پر انڈیا اتحاد کا قبضہ، تمام 81 سیٹوں کے نتائج جاری، جانیے کون کہاں سے رکن اسمبلی منتخب ہوا؟

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.