خدا بچائے تری مست مست آنکھوں سے
فرشتہ ہو تو بہک جائے آدمی کیا ہے
خمار بارہ بنکوی
حسیں تیری آنکھیں حسیں تیرے آنسو
یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے
جگر مراد آبادی
جب ڈوب کے مرنا ہے تو کیا سوچ رہے ہو
ان جھیل سی آنکھوں میں اتر کیوں نہیں جاتے
شاہد کمال
ان جھیل سی گہری آنکھوں میں
اک لہر سی ہر دم رہتی ہے
رسا چغتائی
خنجر ہیں تیری آنکھیں تلوار تیری آنکھیں
زندہ نہ رہنے دیں گی اے یار تیری آنکھیں
نامعلوم
نظر میں بند کرے ہے تو ایک عالم کو
فسوں ہے سحر ہے جادو ہے کیا ہے آنکھوں میں
شیخ ظہور الدین حاتم
پیمانہ کہے ہے کوئی مے خانہ کہے ہے
دنیا تری آنکھوں کو بھی کیا کیا نہ کہے ہے
نامعلوم
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
میر تقی میر
کبھی ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں ہوش نہیں ہوش نہیں
جگر مراد آبادی
تری نگاہ نے ظالم کبھی یہ سوچاہے