معراج مصطفیٰ ﷺ، اللہ تعالیٰ کے بےشمار احسانات و انعامات میں سے ایک اہم نعمت ہے اور آنحضرت ﷺ کی انگنت معجزات میں سے ایک ہے، جو بظاہر ایک آن میں وقوع پذیر ہوا مگر اس کی حقیقی مسافت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی جانتے ہیں، ہاں اتنا ضرور ہے کہ احادیث و تفاسیر کی رو سے جو کروڑوں یا اربوں کھربوں سال یا اس سے بھی کہیں زیادہ کی مسافت تھی اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اسے ایک آن یا اس سے کم میں مکمل کر دیا اور جہاں یہ اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کی قدرت کی عظیم الشان نشانی ہے وہیں آقائے دو جہاں سرور کونین کا عظیم الشان معجزہ بھی ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خاص اپنے آخری نبی کو عطا فرمایا۔
عربی لغت میں معراج ایک وسیلہ ہے جس کی مدد سے بلندی کی طرف چڑھا جائے اسی لحاظ سے سیڑھی کو بھی معراج کہا جاتا ہے۔
روایات اور تفسیر میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے آسمان کی طرف اور پھر مکہ لوٹ آنے کے جسمانی سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں سورۃ اسریٰ کی پہلی آیت میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔
سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ اٰيٰـتِنَا ط اِنَّهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ. (بنی اسرائيل، 17: 1)
(ترجمہ: وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔)
آپ ﷺ کی یہ مسافت خدا کی نشانیاں دیکھنے کا پیش خیمہ بنی مذکورہ آیت میں معراج النبی ﷺ کے پہلے مرحلے کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ اس سفر کے دوسرے مرحلے کی عکاسی سورہ نجم کی ابتدائی آیات میں اس طرح کی گئی۔
وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰی. مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی. (النجم، 53: 1،2)
(ترجمہ: قسم ہے روشن ستارے (محمدﷺ) کی جب وہ (چشم زدن میں شب معراج اوپر جا کر) نیچے اترے۔ تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (رسول ﷺ جنہوں نے تمہیں اپنا صحابی بنایا) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکے۔)
معراج کیوں کروائی گئی؟
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا سینہ چاک کیا۔ سینہ چاک کرنے کے بعد میرا دل نکالا پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا۔ اس کے بعد میرے دل کو دھویا گیا پھر وہ ایمان و حکمت سے لبریز ہوگیا۔ اس قلب کو سینہ اقدس میں اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔ (بخاری شريف جلد اول صفحة: 568)
مسلم شریف میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سینہ چاک کرنے کے بعد قلب مبارک کو زم زم کے پانی سے دھویا اور سینہ مبارک میں رکھ کر سینہ بند کردیا۔
(مسلم شربف جلد اول صفحة: 92)
اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ پھر میرے پیٹ ( کے اندر کی تمام چیزیں یا دل کی جگہ) کو زمزم کے پانی سے دھویا گیا۔ اور پھر اس میں ایمان و حکمت بھرا گیا، اس کے بعد سواری کا ایک جانور لایا گیا جو خچر سے نیچا اور گدھے سے اونچا تھا، یہ جانور سفید رنگ کا تھا اور اس کا نام براق تھا ( اس کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ) جہاں تک اس کی نظر جاتی تھی وہاں اس کا ایک قدم پڑتا تھا، مجھے اس پر سوار کیا گیا اور جبرائیل (علیہ السلام) مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ میں آسمان دنیا ( یعنی پہلے آسمان) پر پہنچا، جبرائیل (علیہ السلام) نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو ( دربان فرشتوں کی طرف سے) پوچھا گیا کہ کون ہے؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا میں جبرائیل ہوں پھر پوچھا گیا اور تمہارے ساتھ کون ہے؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے جواب دیا ! محمد ﷺ ہیں۔ اس کے بعد سوال کیا گیا، ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ( یا از خود آئے ہیں) جبرائیل (علیہ السلام) نے جواب دیا بلایا گیا تھا۔ تب ان فرشتوں نے کہا ہم محمد ﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں، آنے والے کو آنا مبارک ہو۔
اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) میرے سامنے کھڑے ہیں، جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا یہ تمہارے باپ ( یعنی جد اعلی، آدم ہیں ان کو سلام کرو۔ میں نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا ! میں نیک بخت بیٹے اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں۔
اس طرح آپﷺ نے دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام)، تیسرے آسمان میں حضرت یوسف (علیہ السلام)، چوتھے آسمان میں حضرت ادریس (علیہ السلام)، پانچویں آسمان میں حضرت ہارون (علیہ السلام)، چھٹے آسمان میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ساتویں آسمان میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات کا واقعہ بیان فرمایا۔
اس کے بعد سدرۃ المنتہی کا نظارہ آپﷺ نے بیان کیا۔ جس میں آپ نے بیان کیا کہ، میں نے دیکھا کہ اس کے پھل یعنی بیر، مقام ہجر کے ( بڑے بڑے) مٹکوں کے برابر تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے، جبرائیل (علیہ السلام) نے ( وہاں پہنچ کر) کہا یہ سدرۃ المنتہی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا، میں نے وہاں چار نہریں بھی دیکھیں، دو نہریں تو باطن کی تھیں اور دو نہریں ظاہر کی تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا، میں نے پوچھا جبرائیل۔۔ یہ دو طرح کی نہریں کیسی ہیں ؟ جبرائیل نے بتایا یہ باطن کی دو نہریں جنت کی ہیں اور یہ ظاہر کی دو نہریں نیل اور فرات ہیں۔
اس کے بعد حضرت محمدﷺ نے فرمایا، پھر مجھ کو بیت المعمور دکھلایا گیا اور اس کے بعد ایک پیالہ شراب کا، ایک پیالہ دودھ کا اور ایک پیالہ شہد کا میرے سامنے لایا گیا ( اور مجھے اختیار دیا گیا کہ ان تینوں میں سے جس چیز کا پیالہ پسند ہو لے لوں) چناچہ میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا، جبرائیل (علیہ السلام) نے ( یہ دیکھ کر کہ میں نے دودھ کا پیالہ کو اختیار کیا) کہا دودھ فطرت ہے اور یقینا تم اور تمہاری امت کے لوگ اسی فطرت پر ( قائم وعامل) رہیں گے ( اور جہاں تک شراب کا معاملہ ہے تو وہ ام الخبائث اور شر و فساد کی جڑ ہے) اس کے بعد وہ مقام آیا جہاں مجھ پر ( ایک دن اور ایک رات کی) پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔
پھر آپﷺ نے وہ واقعہ بھی بیان کیا جس میں ہمارے پیارے نبیﷺ نے اپنی کمزور امت کے لیے بارگاہ رب العزت میں جا کر نمازوں میں مزید تخفیف کی درخواست کی۔