حیدرآباد:مرزا غالب اور علامہ اقبال کے بعد اردو کے سب سے عظیم شاعر فیض احمد فیص ہیں۔ آپ انجمن ترقی پسند مصنفین تحریک کے فعال رکن اور ایک ممتاز اِشتراکیت اسٹالنسٹ فکر کے کمیونسٹ تھے۔ فیض احمد فیض کی پیدائش 13 فروری 1911 کو تقسیمِ ہند سے پہلے سیالکوٹ میں ہوئی۔ فیض کی ابتدائی تعلیم کا آغاز بھی گھر سے ہی ہوا۔
انہوں نے گھر میں ہی اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد ان کا داخلہ انجمن اسلامیہ کے مدرسے میں کرا دیا گیا جس کے صدر خود ان کے والد تھے۔ فیض نے گورنمنٹ کالج لاہور سے 1931 میں عربی میں بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ سنہ 1933 میں انگریزی ادب میں ایم اے اور پھر 1934 میں عربی زبان و ادب میں بھی امتیازی نمبرات کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
فیض نے شاعری میں رومانیت کے ساتھ اشتراک کے عناصر کو بھی یکجا کیا ہے۔ اس کی بہترین مثال ان کے ابتدائی مجموعہ کلام نقش فریادی کی لا فانی نظم 'مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ' میں ملتی ہے۔ فیض کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری اور زندگی میں زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔ جو خیالات ان کی زندگی کو متاثر کر رہے تھے وہ ان کی شاعری کو بھی مزید بلند بنا رہے تھے۔ آئیے آج کے شعر و ادب میں ان کی مشہور زمانہ غزل صبحِ آزادی ملاحظہ فرمائیں...
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل
جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیار حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی رہیں باہیں بدن بلاتے رہے