حیدرآباد (نیوز ڈیسک): آج دنیا بھر میں شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کا یوم پیدائش اور عالمی یوم اردو منایا جا رہا ہے۔ اس مناسبت سے ہندوستان سمیت پورے برصغیر کے اردو حلقوں میں الگ الگ نوعیت کے پروگرامز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ شاعر مشرق اور مفکر اسلام ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی پیدائش 9 نومبر 1877 کو موجودہ پاکستان کے سیالکوٹ میں میں ہوئی۔
علامہ اقبال کی تعلیم
انہوں نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی۔ 6 مئی 1893ء میں انہوں نے میٹرک پاس کیا اور 1895ء میں اقبال نے ایف اے کیا اور مزید تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے۔ یہاں 1898ء میں انہوں نے گورنمنٹ کالج سے بی اے پاس کیا اور ایم اے (فلسفہ) میں داخلہ لے لیا۔ مارچ 1899ء میں ایم اے پاس کرنے کے بعد انہوں نے 13 مئی 1899ء کو اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت چار سال تک خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد 1905 میں برطانیہ سے وکالت اور بعد میں جرمنی سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
علامہ اقبال کی شاعری
ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال 1910 میں بھارت واپس آنے کے بعد شاعری کو ذریعہ بنا کر مسلمانوں میں فکری اور سیاسی بیداری پیدا کرنا شروع کر دیا۔ علامہ اقبال نے مشرقی تہذیب و ثقافت اور اسلامی اقدار کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کو پورے بر صغیر میں شاعر مشرق کے نام سے جانا جاتا ہے۔ محمد اقبال اپنی فکری شاعری کی بنیاد پر ایسی خدمات انجام دیں کہ وہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی مشعل راہ بن گئے۔ ڈاکٹر علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعہ دنیائے اردو میں ایسا انقلاب برپا کیا اور ایسی روح پھونکی جسے محبان اردو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کے تئیں دنیا بھر کے مسلمان ایسی عقیدت رکھتے ہیں جو آج تک کسی شاعر کے حصے میں نہیں آئی۔ علامہ اقبال کا انتقال 21 اپریل 1938 کو لاہور میں ہوا۔
اردو اور علامہ اقبال
علامہ اقبالؒ نے بنیادی طور پر اردو زبان کو اپنی شاعری اور اپنے آفاقی پیغامات کا ذریعہ بنایا۔ اردو، جنوبی ایشیا کی ایک اہم اور بڑی زبان ہے۔ یہ بھارت کی اٹھارہ قومی زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ پاکستان کی سرکاری زبان ہے۔ اردو کے معنیٰ لشکر کے ہوتے ہیں اور اپنے معنیٰ کے اعتبار سے اپنے اندر عربی و فارسی اور سنسکرت اور انگلش سمیت دیگر زبانوں کے الفاظ کو خوبصورتی سے اپنے اندر سمونے میں اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ہاں مگر یہ کوئی ذیلی زبان یا بولی نہیں بلکہ ہندی کی طرح یہ ایک ہند آریائی زبان ہے جو برصغیر ہند میں پیدا ہوئی اور یہیں پلی بڑھی اور پروان چڑھی۔
اردو کی ابتدا کب ہوئی
تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو اردو کی ابتدا بارہویں صدی کے بعد مسلمانوں کی آمد سے ہوتی ہے۔ یہ زبان شمال مغربی ہندوستان کے علاقوں سے رابطے کی زبان کے طور پر اُبھری، جب اس زبان کو ہندوی کہا جاتا تھا۔ عہد وسطیٰ میں اس مخلوط زبان کو مختلف ناموں سے جانا گیا، مثلاً ہندوی، زبان ہند، ہندی، زبانِ دہلی، ریختہ، گجری، دکنی، زبانِ اردوئے معلّٰی، زبان اردو وغیرہ۔ لغوی اعتبار سے اردو (اصل میں ترکی زبان کا لفظ ہے) جس کے معنیٰ لشکر، چھاؤنی یا شاہی پڑاؤ کے ہوتے ہیں۔ یہ لفظ دہلی شہر کے لیے بھی مستعمل تھا جو صدیوں مغلوں کا دارالحکومت رہا۔
مزید پڑھیں: علامہ اقبال کے شعر کو آج بھی بھارتی افواج کے بینڈ میں بجایا جاتا ہے
اورنگ آباد میں علامہ اقبال کی یوم پیدائش کی مناسبت سے یوم اردو منایا گیا
یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ اردو نے نہ صرف بھارت میں جنم لیا بلکہ یہیں پر پورے ناز و نعم کے ساتھ پروان چڑھی۔ دہلی اور اس کے اطراف میں جنم لینے والی اردو کی ابتدا اور ارتقا ہی یہاں کی مختلف تہذیبوں کے بیچ ایک پل اور ربط کے ایک مضبوط ذریعہ کے طور پر ہوئی۔ بعد میں ولی دکنی، علامہ اقبال، مرزا غالب، میر تقی میر، داغ دہلوی رگھوپتی رائے فراق گورکھپوری سے لے کر بشیر بدر، پروین شاکر، منٹو، ابن صفی تک ان گنت لوگوں نے اسے اپنے خون پسینے سے جوان اور خوب رو بنایا۔ پھر ایک ایسا زریں دور بھی آیا کہ اردو تہذیب اور شیرینی کا استعارہ بن گئی۔
اقبال اور اردو کے سوتیلا سلوک
اردو نے ملک کو برطانوی سامراج سے آزادی کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا ہے تو بھارتی فلم سنیما میں بھی اردو کا اہم رول رہا ہے۔ مگر تقسیم ہند کے بعد حالات نے کچھ اس طرح کروٹ بدلی کہ اردو اپنے ہی وطن میں پہلے پرائی اور اجنبی بنا دی گئی اور اب 'نیو انڈیا' کے دور میں علامہ اقبال اور اردو کو دشمن اور شجر ممنوعہ جیسے برتاؤ کا سامنا ہے۔ اسی سال کا واقعہ ہے جب 27 مئی کو دہلی یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل نے علامہ اقبال کو تقسیم ہند اور قیام پاکستان کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے انہیں اپنے نصاب ہٹا دیا۔
یہ بھی پڑھیں: شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا نوجوانوں کے نام پیغام
اس کے علاوہ یوپی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے اردو اور اہل اردو کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ 24 دسمبر 2022 کو بریلی ضلع کے ایک سرکاری اسکول میں علامہ اقبال کی دعا 'لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری' پڑھانے پر پرنسپل اور ایک معاون ٹیچر کے خلاف نہ صرف مقدمہ درج کیا گیا بلکہ معاون ٹیچر ناہید صدیقی کو گرفتار کرنے کے علاوہ انہیں ملازمت سے برخواست بھی کر دیا گیا۔ ایک طرح سے ملک میں اردو اور علامہ اقبال کی ترویج کو قابل سزا جرم بنا دیا گیا ہے۔
نوٹ: اس مضموں کو ترمیم و اضافہ کے ساتھ دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔