مشاعرے ہماری تہذیب کا ایک حصہ ہیں: ارشاد انجم بیدر: ریاست مہاراشٹر کے معروف شاعر و ناظم مشاعرہ ارشاد انجم سے ای ٹی وی اردو نے خصوصی گفتگو کی۔ اپنے ادبی سفر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرا ادبی سفر تو شروع ہوا 2008 سے جب میری عمر کافی کم تھی۔ لیکن ادبی ذوق تھا۔ پہلا پروگرام میں نے اپنے شہر مالیگاؤں مہاراشٹرا میں ایک نعتیہ انعامی مقابلہ تھا جو ایک مدرسہ میں تھا میرے دوستوں کو پتہ تھا کہ میں شعر و شاعری میں بڑا انٹرسٹ رکھتا ہوں۔ شعر و شاعری سے شغف رکھتا ہوں تو ان لوگوں نے مجھ سے کہا کہ ارشاد بھائی آپ کو نظامت کرنی ہے تو میں نے کہا ٹھیک ہے۔ پہلی مرتبہ 2008 میں میں نے نعتیہ انعامی مقابلہ تھا ان بچوں کے پروگرام کی نظامت کی۔ پھر اس کے بعد 2010 میں پرتاب گڑھ میں ایک آل انڈیا مشاعرے کی نظامت کی۔ پھر اس کے بعد سے الحمدللہ لوگوں کی محبتیں ملتی گئیں اور یہ سفر چلتا رہا آج پورے ہندوستان بھر میں مشاعروں کی نظامت کرتا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں:
ناظمِ مشاعرہ اگر صلاحیت مند ہے تو وہ مشاعرے کو باندھ کے رکھتا ہے
کیا آپ یہ بات مانتے ہیں کہ مشاعرے میں جو ناظم ہوتا ہے وہ مشاعرے کو باندھ کے رکھتا ہے۔ اس سوال پر ارشاد انجم نے کہا کہ مشاعرے میں، میں سمجھتا ہوں کہ ریڑھ کی ہڈی نظامت ہوتی ہے۔ جہاں تک میرا اپنا تجربہ ہے ایک شاعر اگر انقلابی شعر سنا رہا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ لوگ اچھل اچھل کر داد دیتے ہیں بہت اچھا ماحول بن جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد مجھے کوئی نرم لہجہ کی غزل سنجیدہ لہجے کا شاعر اگر پیش کرتا ہے تو اس پہلے شاعر نے جو دھوم مچائی ہے اس کے سحر کو ختم بھی کرنا ہے اور تھوڑا سا نرم لہجے کے اشعار کو پیش کرنا ہے تو اس کیفیت کو تبدیل کرنے کا ہنر ایک ناظم کے اندر ہونا چاہیے۔
اسی طرح اگر کوئی مزاحیہ شاعر پڑھ رہا ہے تو انسانی فطرت کے اندر طنز و مزاح کا حصہ زیادہ ہوتا ہے۔ آدمی بہت دیر سنجیدہ نہیں رہنا چاہتا وہ ہم سے انٹرٹین چاہتا ہے تو مزاحیہ شاعر کے بعد مشاعرہ پوری طرح سے اپنے رخ کو تبدیل کر چکا ہوتا ہے۔ اس وقت ایک سنجیدہ شاعر کو اگر پیش کرنا ہے تو وہاں پہ ناظم کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ کس طرح سے اپنی قابلیت بتا سکے یا کس طرح سے اس پورے مجمع کو اپنے کنٹرول اپنے بس میں کرے۔ ہر ایک شاعر کے بعد ایک نیا چیلنج ہوتا ہے۔ ناظم کے لیے مشاعرے میں کہ وہ کس طرح سے مشاعرے کو باب عروج پر لے کر جاتا ہے۔ کس طرح سے وہ اپنی گرفت میں مجمع کو رکھتا ہے یہ بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔
ہر ناظم کے لیے امتحان ہوتا ہے اور کہیں کہیں ہم لوگ اس میں پاس بھی ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں فیل بھی ہو جاتے ہیں۔ جب ہمارے داؤ پیچ نہیں چل پاتے لیکن مشاعرہ چونکہ ایک کہانی ایک فلم کی طرح ہوتا ہے تو سب کو اپنا اپنا کردار نبھانا ہوتا ہے تو جیسے ایک شاعر آکر اپنا کردار نبھاتا ہے۔ ویسے ہی ایک ناظم بھی اپنے کردار نبھاتا ہے۔ بس اسی طرح سے وہ کہانی مکمل ہوتی ہے اور محبت کرنے والے لوگ جہاں ملتے ہیں تو وہاں پہ کسی کی بھی ابرو خطرے میں نہیں ہوتی۔ ہر شخص کامیاب ہوتا ہے۔ آپ نے ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں مشاعروں کی نظامت کی ہے تو ایسی کون سی ریاست ہے جہاں پر آپ کو لگا کہ یہاں پر ادبی ماحول بہت اچھا ہے۔
بس اب گوا نے کو اردو زبان باقی ہے
جو ہو سکے تو اسی کو بچا لیا جائے
پورے ہندوستان کے اندر لوگ اس وقت سوشل میڈیا کی وجہ سے جو شاعرات کے ویڈیوز ہوتے ہیں۔ شعراء کرام کے جو ریلیز ہوتے ہیں جس میں ایک شعر یا چار مصرے کسی شاعر کے گردش کرتے ہیں تو ایک فائدہ سوشل میڈیا سے ہوا ہے۔ اس وقت ہم لوگوں کا یہ ہوا ہے مشاعروں کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ بہت ساری جگہوں پہ ایک رجحان بن گیا ہے۔ اچھا شعر سننے کا کیونکہ یوٹیوب میں جب کوئی دو مصرے چار مصرے کسی شاعر کے سنتا ہے تو اسے لائک بھی کرتا ہے اسے کمنٹ بھی کرتا ہے۔ اچھے شعراء تمام ریاستوں میں سنے جا رہے ہیں اور انشاء اللہ بہتری کی طرف مشاعرے جا رہے ہیں اور جائیں گے ہم لوگ کوشش بھی کر رہے ہیں اور اچھے سننے والے جب ملتے ہیں تو لگتا ہے کہ اردو زبان بھی باقی رہے گی ادب بھی باقی رہے گا اور ماحول خوشگوار رہے گا۔
اکثر ہم ان دنوں دیکھ رہے ہیں ملک میں اردو شعرا اور ہندی کے قلمکار مل کر اسٹیج شیئر کر رہے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا کلچر ہے۔ ہماری تہذیب ہے۔ ہندی منچ کا کوی ہو اور اردو زبان کا شاعر ہو۔ آج ایک اسٹیج پر کلام پڑھ رہے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے یہ تو ہمارا ہندوستان ہے۔ یہی تو ہماری سبیتا ہے یہ ہمارے اس ملک کی خوبصورتی ہے۔ ہندی کا کوی ہو یا اردو کا شاعر ہو اگر یہ ایک منچ پر ہوتے ہیں تو ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ ہندوستانی تہذیب ابھی مشاعروں اور ہندی منچ کے ذریعہ ملک میں باقی ہے۔