سرینگر: نیرجا مٹو کشمیر کی ایک ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے۔ بہترین استاد اور ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ نیرجا ایک قابل ترجمہ کار بھی ہیں۔
نیرجا مٹو سرینگر کے ایک پنڈت گھرانے میں پیدا ہوئی اور یہ اپنی بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ان کے والد اس زمانے میں ڈگری کالج میں انگریزی کے پروفیسر تھے، ایسے میں انہیں گھر میں بہترین تعلیمی ماحول ملا۔
اگرچہ اس وقت کشمیر میں لڑکیوں کا پڑھنے کا رواج نا کے برابر تھا، تاہم انہوں نے اپنے پڑھنے کا بے حد شوق کو پروان چڑھاتے ہوئے وومنز کالج سے گریجویشن کی۔ بعد میں اس زمانے کی جموں وکشمیر یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ ایسے میں ایم اے کے بعد انہیں بحثیت لیکچرر وومن کالج سرینگر میں کام کرنے کا موقع ملا۔
اس زمانے میں خواتین کا گھر سے باہر کام کرنا یا اعلی تعلیم حاصل کرنا ایک اچھا کام نہیں سمجھا جاتا تھا،جس کی وجہ سے اگرچہ انہیں بھی وومنز کالج میں کام کرنے پر اپنے خاندان کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اس وقت انہیں اپنے والد کا بھر پور تعاون حاصل رہا۔ لیکچرر تعینات ہونے کے بعد پروفسیر اور پھر نیرجا مٹو وومن کالج سرینگر میں ہی بحثیت پرنسپل سبکدوش ہوئی۔
نیرجا مٹو چونکہ ہندی،کشمیری اور انگریزی زبانوں پر مہارت رکھتی ہیں، ایسے میں یہ اپنی پڑھائی کے دوران کشمیری زبان کی کئی کہانی انگریزی میں ترجمہ کرچکی تھی۔جن میں کشمیری کے نامور شاعر امین کامل کی" کوکر جنگ" اور اختر محی الدین کی"سرگہ ہور" شامل ہیں اور یہ دنوں کہانیاں اس وقت ساہتہ اکیڈمی نے شائع بھی کی جس پر انہیں اس وقت سو روپے کا چیک بھی انعام کے طور ملا۔نیرجا مٹو نے اس کے بعد کئی کشمیر شعراء کی ان گنت کہانیوں کو کشمیری سے انگریزی میں حوبحو ترجمہ کیا۔
اتنا ہی نہیں، بلکہ انہوں نے کشمیر کی چار خواتین شاعرہ لل دید،حبہ خاتون،ارنی مال اور روپا بھوانی پر ایک انگریزی کتاب بھی لکھی ہے۔ "دی میسٹک اینڈ دی لیرک" کے نام سے اس انگریزی کتاب میں ان کی شاعری اور زندگی کے اہم نکات کے علاوہ ان کی اشعار کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔
ہندی، کشمیری اور انگریزی زبانوں پر مہارت رکھنے والی نیرجا مٹو سے خاص ملاقات
Meet Kashmiri Writer Neerja Mattoo نیرجا مٹو ہندی، کشمیری اور انگریزی زبانوں پر مہارت رکھتی ہیں، ایسے میں یہ اپنی پڑھائی کے دوران کشمیری زبان کی کئی کہانی انگریزی میں ترجمہ کرچکی تھی،جن میں کشمیری کے نامور شاعر امین کامل کی" کوکر جنگ" اور اختر محی الدین کی"سرگہ ہور" شامل ہیں۔
Published : Mar 19, 2024, 3:47 PM IST
|Updated : Mar 28, 2024, 2:17 PM IST
مزید پڑھیں:مشہور شاعر رسول میر کو جان کیٹس کیوں کہا جاتا ہے؟
ترجمے کے علاوہ نیرجا مٹو کی اب تک تقریباً 7 کتابیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں سال 1988 میں سب سے پہلے جموں وکشمیر اور لداخ پر لکھی کتاب " کافی ٹیبل" منظر عام پر آئی اور اس کے بعد انہوں نے "دی سٹرینجر بیساینڈ می" لکھی جو کہ سال 1994 میں دیکھنے میں آئی۔پھر ان کی مزید کتابیں بھی منظر عام آئی اور اس وقت نیرجا مٹو صاحبہ ایک اور کتاب پر کام کررہی ہیں۔