واشنگٹن: مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے جواب میں امریکہ نے عراق اور شام دونوں میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے فضائی حملے شروع کیے ہیں۔ یہ ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے خلاف مزید ٹھوس حملوں کا سلسلہ شروع ہونے کا اشارہ ہے، جو خطے میں امریکی فوجیوں پر حملوں میں ملوث ہیں۔ دو امریکی حکام نے ان جوابی اقدامات کے آغاز کی تصدیق کی۔
یہ فضائی حملے اتوار کے روز اردن میں امریکی فوجی چوکی پر ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کے ڈرون حملے کے بعد کیے گئے، جس کے نتیجے میں تین امریکی فوجی ہلاک اور 40 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ یہ انتقامی کارروائی صدر جوبائیڈن کے ہلاک ہونے والے فوجیوں کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں شرکت اور ان کے غمزدہ خاندانوں سے ملاقات کے فوراً بعد سامنے آئی ہے۔
- عراق کے القائم پر امریکی فضائی حملے میں ایک شخص ہلاک
مغربی عراق کے القائم ضلع پر امریکی فضائی حملوں میں ایک شخص ہلاک اور دوسرا زخمی ہو گیا ہے۔ عراقی سیکورٹی سروسز کے ایک ذرائع نے یہ اطلاع دی۔ امریکی سنٹرل کمانڈ نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ امریکہ نے125 درست ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے ایران کی اسلامی انقلابی گارڈز کور (آئی آر جی سی) قدس فورس اور عراق اور شام میں اس سے منسلک ملیشیا گروپوں سے تعلق رکھنے والے 85 مقامات پر اپنا پہلا جوابی حملہ کیا۔
امریکی حکام کا خیال ہے کہ یہ حملے ممکنہ طور پر حالیہ ہفتوں میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے خلاف گزشتہ کارروائیوں سے زیادہ اہم ہوں گے۔ تاہم بائیڈن انتظامیہ کا مقصد ایک نازک توازن برقرار رکھنا ہے، اور غزہ میں جاری اسرائیل-حماس جنگ کے دوران ایران کے ساتھ مکمل تنازعے سے گریز کرتے ہوئے مزید حملوں کو روکنا ہے۔
ڈیفنس سکریٹری لائیڈ آسٹن نے کہا کہ ہمارے پاس کئی بار جواب دینے کی صلاحیت ہے، اس پر منحصر ہے کہ صورتحال کیا ہے۔ انتظامیہ ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کی صلاحیتوں کو تسلیم کرتی ہے لیکن مؤثر طریقے سے جواب دینے کی صلاحیت میں اعلیٰ طاقت کا دعویٰ کرتی ہے"۔ آسٹن نے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "ان کے پاس بہت زیادہ صلاحیت ہے۔ میرے پاس اور بھی بہت کچھ ہے۔"
مزید پڑھیں: امریکی صدر کا شام میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے خلاف حملوں کا حکم
واضح رہے کہ صدر بائیڈن پر امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں اور ملیشیا کے حملوں کو فیصلہ کن طور پر روکنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں نے اکتوبر سے لے کر اب تک 160 سے زیادہ مرتبہ امریکی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔ جس سے کچھ ریپبلکن قانون سازوں نے ایران کے اندر براہ راست حملوں کی وکالت کی ہے۔ تاہم انتظامیہ پہلے سے ہی غیر مستحکم خطے میں مزید کشیدگی سے بچنے کے لیے متناسب ردعمل پر زور دے رہی ہے۔