واشنگٹن: امریکی افواج کی جانب سے عراق اور شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے درجنوں اہداف کو نشانہ بنانے کے بعد وائٹ ہاؤس نے جمعے کو تصدیق کی ہے کہ امریکہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا۔ خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے پریس کو بتایا کہ "ہم ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے ہیں"۔
العربیہ کے مطابق انہوں نے مزید کہا کہ 28 جنوری کو شمال مشرقی اردن میں امریکی فوجی اڈے پر حملے کے بعد سے ایران کے ساتھ کوئی "رابطے" نہیں ہیں۔ غیر رسمی یا بالواسطہ رابطے تک نہیں۔ جان کربی نے عراق اور شام میں امریکہ کی طرف سے شروع کیے گئے حملوں کی "کامیابی" کا بھی اعلان کیا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اس آپریشن میں حصہ لینے والے امریکی جنگی طیاروں نے سات مختلف مقامات پر کل 85 اہداف کو نشانہ بنایا۔ ان میں تین عراق اور چار شام میں ہیں۔"تقریباً 30 منٹوں میں 125 سے زیادہ گائیڈڈ میزائل داغے گئے۔ امریکی فوج کے مطابق جنگی طیارے نشانہ بنائے گئے علاقوں سے نکل چکے ہیں۔
جان کربی نے مزید کہا کہ امریکہ نے ایران سے منسلک اہداف کے خلاف جوابی حملے کرنے سے پہلے عراقی حکومت کو آگاہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے عراقی حکومت کو اس بارے میں پیشگی مطلع کر دیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ایک سینیر اہلکار نے سی این این کو بتایا کہ امریکہ ایران کے اندر حملے نہیں کرے گا اور اس سے باہر کے اہداف پر توجہ مرکوز رکھے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی حکام کئی دنوں سے آگاہ تھے کہ پہلا حملہ جمعہ کی رات کو کیا جائے گا۔ جمعے کی شام امریکی فوج نے عراق اور شام میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس اور اس کے ساتھ منسلک مسلح دھڑوں کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی حملوں کے نفاذ کا اعلان کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس نے عراق اور شام میں 85 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا۔ نشانہ بنائے گئے مراکز میں کمانڈ، کنٹرول اور جاسوسی کے مراکز اور میزائلوں اور ڈرونز کے ذخیرہ کرنے کی جگہیں شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ فضائی حملوں میں 125 سے زیادہ گائیڈڈ میزائلوں کا استعمال کیا گیا۔
مزید پڑھیں:امریکہ کا عراق اور شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاوں کے 85 ٹھکانوں پر حملے
مزید پڑھیں: امریکی صدر کا شام میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے خلاف حملوں کا حکم
دوسری جانب عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السودانی کے عسکری ترجمان یحییٰ رسول نے کہا ہے کہ امریکی جوابی حملے عراق کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے اور عراق کی سلامتی اور استحکام کے لیے "سنگین" نتائج کا باعث بنیں گے۔ یحییٰ رسول نے ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ شام کے ساتھ سرحد پر القائم علاقے اور دیگر "عراقی سرحدی علاقوں" پر "امریکی قیادت میں فضائی حملے" کیے گئے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ "یہ حملے عراق کی خودمختاری کی خلاف ورزی، عراقی حکومت کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہیں۔ یہ حملے ایک ایسا خطرہ ہیں جو عراق اور خطے کو ناپسندیدہ نتائج کی طرف لے جائے گا۔
یو این آئی