رباط، مراکش: مراکش نے ملک کی مسجدوں میں مشرق وسطیٰ میں جاری جنگ سے متعلق خطبات کے لیے گائیڈ لائنس جاری کیے ہیں۔ خطبات کے دوران مشرق وسطیٰ میں جنگ کے بارے میں مبلغین پر عائد پابندیوں پر سیاست دان اور کارکنان سوال اٹھا رہے ہیں۔
اس ہفتے ملک کی پارلیمنٹ میں ایک اجلاس کے دوران، سوشلسٹ قانون ساز نبیلہ منیب نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اماموں کو فلسطینیوں کی حالت زار کے بارے میں بات کرنے اور ان کے مقصد کی حمایت کے لیے مذہبی جدوجہد کا مطالبہ کرنے سے روکا جا رہا ہے۔
منیب نے منگل کے روز دعویٰ کیا کہ، کوئی امام مسئلہ فلسطین کے بارے میں بات نہیں کر سکتا، آج کوئی فلسطین میں ہمارے بھائیوں کے لیے جہاد کا مطالبہ نہیں کر رہا ہے۔"
مراکش کی اسلامی امور کی وزارت نے گزشتہ اکتوبر میں ایک بیان میں کہا تھا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک دستاویز جس میں اس طرح کی حدود کا خاکہ بنانے کا دعویٰ کیا گیا ہے وہ جعلی ہے اور اس میں فلسطینی کاز کے لیے مراکش کی حمایت کو اجاگر کیا گیا ہے۔
جمعہ کو مراکش کے اخبار انفاس پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں، منیب نے کہا کہ وہ ائمہ کو فلسطینیوں کے بارے میں تبلیغ کرنے سے روکنے کی کوششوں کی مذمت کرنا چاہتی تھیں لیکن انہوں نے یہ نہیں کہا کہ انہیں اپنے منبروں سے جہاد کی دعوت دیں۔
اسلامی امور کے وزیر احمد توفیق نے منیب کے اس دعوے کی تردید کی کہ مبلغین اسرائیل اور حماس کی جنگ کی بات نہیں کر سکتے لیکن انہوں نے جہاد کے مطالبات پر پابندی کو تسلیم کیا اور اس کا دفاع کیا۔
انہوں نے کہا، "کوئی بھی امام جو بربریت اور ناانصافی کے بارے میں بات کرتا ہے اور ان کی مذمت کرتا ہے، خوش آئند ہے، لیکن جہاد کی دعوت دینا کچھ اور ہے۔"
اس ہفتے ممانعت کی وضاحت کرتے ہوئے، توفیق نے خبردار کیا کہ جہاد کی مختلف تشریحات ہیں۔
مراکش آبزرویٹری فار اینٹی نارملائزیشن کے احمد ویمن نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ، "اماموں کو موقف اختیار کرنے کا حق ہے اور اسلام میں ان کا فرض بھی ہے۔" "حکومت کا مراکش کی رائے عامہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ مراکش کی نمائندگی نہیں کرتے۔"
مراکش خطے کی تاریخی طور پر اہم ترین یہودی برادریوں میں سے ایک ہے اور 2020 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے والی چار عرب ریاستوں میں سے ایک تھی۔
اسرائیل کے اقدامات اور مراکش سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کرنے والے مظاہروں نے منیب جیسے سوشلسٹوں کو اسلام پسندوں کے ساتھ متحد کر دیا ہے، جن میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اور العدل وال احسان، ایک کالعدم لیکن اپنے کام کر رہی اسلامی تحریک سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں جو انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لیتے ہیں۔ اس کے کچھ ارکان کو جنگ کے دوران اسرائیل کے ساتھ مراکش کے تعلقات کے بارے میں سوشل میڈیا پر رائے دینے پر گرفتاری اور قید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
مراکش سمیت کئی مسلم اکثریتی ممالک نے منبر سے مبلغین کو کیا کہنا ہے اس کی گائیڈ لائن جاری کئے ہیں۔ مراکش طویل عرصے سے اپنے برانڈ اسلام کو دنیا کے سامنے ایک اعتدال پسند قوت کے طور پر بیان کرنے کے لیے کام کرتا آیا ہے۔ حکام کی جانب سے ایسا کرنے کا مقصد انتہا پسندی کو روکنے کی حکمت عملی کہا جاتا ہے۔
کیوبیک میں یونیورسٹی لاوال میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر فرانسسکو کاواٹورٹا نے کہا کہ مراکش، الجزائر، مصر اور شام جیسے ممالک نے تاریخی طور پر مذہب کے بیانیے کو کنٹرول کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اماموں پر کنٹرول کیا ہے کہ خطبات قومی استحکام کو نقصان نہ پہنچائیں۔
انہوں نے کہا کہ، مراکش میں یہ ضابطہ ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھنے کی کوشش کا حصہ ہے جو بتاتا ہے کہ یہ ایک مسلم ملک تو ہے لیکن روادار خوش آئند ملک ہے۔
مراکش نے اس سال ان مبلغین کو معطل کر دیا ہے جو ہدایات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اس کی وزارت اسلامی امور جمعہ کی نماز سے دو دن قبل بدھ کو اماموں کے لیے رہنمائی شائع کرتی ہے۔
پورے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے امام باقاعدگی سے اکتوبر 2023 سے غزہ جنگ کا حوالہ دیتے رہے ہیں، بشمول وہ ممالک جہاں حکومت ان کے خطبات کی نگرانی کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: