گیا:ریاست بہار کے ضلع گیا کے رہائشی اقبال خان اور دیپک چڈھا نے ایک سال پہلے ڈیری فارم کا اسٹارٹ اپ کیا، ان کی نا صرف یہ تجارت بڑھی بلکہ انکی دوستی بھی علاقے کے لئے مثال ہے، چونکہ موجودہ وقت میں گائے سے متعلق معاملہ انتہائی حساس ہوگیا ہے۔ اس لیے مسلم فرقے کے لوگ گائے پالنے سے بھی ڈرتے ہیں لیکن دیپک اور اقبال نے اپنے بچپن کے ارادے کو انجام تک پہنچایا ہے۔ اقبال خان نے اپنے دوست دیپک کے ساتھ اس کام کو کرنے کے لیے بیرون ملک کی اچھی ملازمت سے مستعفی ہوگئے۔ ان کی تجارت اور دوستی کی مثال ضلع میں ایسی بڑھی کہ گیا میں واقع سینٹرل یونیورسٹی آف ساؤتھ بہار کے شعبہ ڈیری سائنس کا ایک وفد جس میں طلباء اساتذہ اور ماہرین شامل تھے اُنہوں نے پہنچ کر معائنہ کیا اور ان دوستوں کی کوششوں کی ستائش کی۔
سینٹرل یونیورسیٹی آف ساوتھ بہار گیا کے طلباء میں بہار جھارکھنڈ، اترپردیش، کیرالہ، تمل ناڈو سمیت کئی ریاستوں کے طلباء تھےجنہوں نے گیا کے ڈوبھی تھانہ حلقہ میں جھارکھنڈ کی سرحد پر واقع بہیرا گاوں جہاں ڈیری فارم واقع ہے وہاں پہنچ کر اقبال خان سے گفتگو کی، اقبال اور دیپک سے ان کے اسٹارٹ اپ سمیت طور طریقے خاص کر گیا ضلع میں شیشے کے بوتلوں میں گھر گھر دودھ کی سپلائی کے آئیڈیا اور ان دونوں کی گہری دوستی کے راز بھی طلباء نے جانا اور ڈیری فارم کو ہی کیوں منتخب کیا اس پرسوال کیے۔
اس حوالے سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے اقبال خان اور دیپک سے خاص گفتگو کی کہ کس طرح ان کو ' ڈیری فارم ' سے جڑی تجارت کا آئیڈیا آیا اور اُنہیں اس کام میں کیا مشکلات پیش آئیں، کب سے ان کی دوستی ہے اور موجودہ وقت میں ہندو مسلم کی تفریق کو کس نظریہ سے دیکھتے ہیں۔ دوران گفتگو دیپک اور اقبال نے کہا کہ واقعی ملک میں گائے کے نام پر اکثر و پیشتر تشدد اور تنازع کے معاملے سرخیوں میں رہے ہیں۔ اس وجہ سے لوگ گھروں میں گائے پالنے کے لیے بھی خرید کر لے جاتے ہیں تو وہ ڈرے سہمے ہوتے ہیں۔ لیکن ہمیں بچپن سے گائے کی خدمت کی عادت اور شوق تھا، ہم نے اسی شوق کو پورا کیا ہے۔ دیپک نے بتایا کہ اقبال انکے بچپن کا دوست ہے، ہندو مسلم کی تفریق اب عام ہوئی ہے حالانکہ انکے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔ ہم آج بھی وہی بچپن کی محبت اور دوستی کو جانتے ہیں لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ معاشرے میں تفریق کا اثر ہے۔
دیپک نے اس معاملے میں مین اسٹریم میڈیا کو بھی ذمہ دار بتایا اور کہا کہ آج بھی ملک کی آبادی ہندو مسلم اتحاد دوستی کے بندھن میں بندھی ہوئی ہے۔ لیکن میڈیا میں اس پر بات نہیں ہوتی تاہم چند لوگ معاشرے میں زہر افشانی کرتے ہیں ان کو ترجیح دی جاتی ہے۔ لیکن ہماری نظر میں ہم دونوں پہلے دوست ہیں اور بعد میں ہندو مسلم ہیں۔ ہمیں ان سب چیزوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون کیا کہتا اور کون کیا کرتا ہے۔ ہم بچپن سے پابند تھے کہ بڑے ہوکر ایک ساتھ تجارت کریں گے، پڑھائی مکمل کے بعد ہم دونوں ذریعہ معاش کے لیے الگ الگ تھے، اقبال خاں ایم بی اے کر بیرون ملک میں اچھی ملازمت میں تھے اور وہ خود ' دیپک ' بیکری کی تجارت سے وابستہ ہوگئے تھے۔ لیکن پھر بھی اس بات پر ہم دونوں اٹل تھے کہ ایک دن ضرور بچپن کے وعدے اور ارادے کو پورا کریں گے اور آخر کار ہم نے ایک ساتھ تجارت شروع کی اور ہماری مثال دی جاتی ہے، معاشرے میں کچھ ہونگے جن کو ہم دونوں کی دوستی راس نہیں آتی ہوگی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ہمیں ان کے نظریہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
- بھائی کے انتقال کے بعد والد نے گائے کی خدمت کا دیا تھا جذبہ