رام مندر کی افتتاحی تقریب کو لے کر مسلمان کیوں فکر مند ہوں گے لکھنو:اتر پردیش کے ایودھیا میں 22 جنوری کو رام مندر کا افتتاح ہونا ہے ۔اس پروگرام میں وزیراعظم نریندر مودی ،یو پی کے وزیراعلی اور ملک بھر کے سیاسی رہنما شامل ہوں گے۔ اس تعلق سے تقریبا ایک ماہ سے لکھنو ایودھیا اور ریاست بھر کے علاقوں میں تیاریاں زور و شور جاری ہے۔یو پی کے مسلمان رام مندر کے تعلق سے کیا خیال رکھتے ہیں ان کے احساسات تو جذبات کیا ہیں۔
ای ٹی وی بھارت نے ریٹائرڈ ائی اے ایس افسر انیس انصاری سے خاص بات چیت کی ہے اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان رام مندر کے افتتاحی پروگرام کے حوالے سے کیا فکر رکھتے ہیں۔
ریٹائرڈ ائی اے ایس افسر انیس انصاری نے کہا کہ بھارت سمیت عالمی سطح پر مسلمان اور دیگر سیکولر خیالات کے لوگ بابری مسجد کی غیر قانونی انہدام پر پر غمزدہ ہیں لیکن ہمیں مندر کے افتتاح کا خیر مقدم نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی کوئی منفی تبصرہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھارت کا قانون بن جاتا ہے جس کی ہمیں پیروی کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم مندر کی تعمیر کا خیرمقدم نہیں کر سکتے کیونکہ اسلام میں ایمان کی اساس ہے کہ ہر چیز کو تخلیق کرنے والا ایک غیر مرئی خدا ہے اس علاوہ ہم کسی کی عبادت نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ کہا کہ ہم دیگر مذاہب کے رہنماؤں کی ہرگز توہین نہ کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ بابری مسجد اور رام مندر پر فیصلہ انے سے قبل لکھنو میں مسلم دانشوران کی ایک اہم میٹنگ ہوئی تھی جس میں ہندو فریق کی جانب سے شری شری روی شنکر اور جسٹس عبد نظیر سمیت کئی مسلم دانشور موجود تھے جس میں بھی موجود تھا اور کئی اہم نکات پیش کیے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:رام مندر کے پران پرتیستھا مہوتسو میں شریک ہونے کے لئے 66 سالہ خورشید عالم ایودھیا کے سفر پر روانہ
انہوں نے کہاکہ اگر ان نکات پہ صلح مصالحت کی صورت بنتی تو ہم دیگر مساجد سے اور دیگر حقوق کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے لیکن افسوس کی اس نشست میں کسی بھی نکات پہ سمجھوتا نہیں ہو سکا تھا جس میں شری شری روی شنکر بھی متفق نہیں ہوئے تھے اور مسلمانوں میں بھی شدید مخالفت ہوئی تھی۔