حیدرآباد (نیوز ڈیسک):آج ہی کے دن موجودہ عراق کے کربلا میں 61ھ بمطابق 680ء کو نواسہ رسول حضرت امام حسین، ان کے رشتہ داروں اور حامیوں پر مشتمل 72 افراد کے ایک چھوٹے سے گروہ کو انتہائی ظالمانہ اور وحشیانہ طریقے سے شہید کر دیا گیا۔ ان پر یہ بدترین ظلم صرف اس لیے ڈھایا گیا کہ انہوں نے اموی حکمران یزید کی حکمرانی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس عظیم قربانی کو اردو ادب میں ایک خاص مقام حاصل رہا، خاص طور سے اردو شاعری میں اس کے لیے مرثیہ گوئی کی باقاعدہ ایک صنف ہے۔ اس وسیع موضوع پر شعراء کرام نے اپنے خون جگر سے ایک سے بڑھ ایک کلام پیش کیے ہیں۔ ان میں سے کچھ منتخب اشعار پیش کیے جا رہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:
حق ہو ستیزہ کار تو باطل ہو سر نگوں
دم بھر میں تار تار ہو شیرازۂ فسوں
دکھلا دیا حسینؓ نے اپنا بہا کے خوں
کرتے ہیں دیکھ سینۂ باطل کو چاک یوں
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
یہ فقط عظمت کردار کے ڈھب ہوتے ہیں
فیصلے جنگ کے تلوار سے کب ہوتے ہیں
جھوٹ تعداد میں کتنا ہی زیادہ ہو سلیمؔ
اہل حق ہوں تو بہتر بھی غضب ہوتے ہیں
سلیم کوثر
ادراک تھا امام کو کیا ہے مقامِ عشق
سب کچھ نثار کر دیا اپنا بنامِ عشق
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
موج دریا کے لبوں پر تشنگی ہے کربلا
ریگ ساحل پر تڑپتی زندگی ہے کربلا
نزہت عباسی
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسین
جوش ملیح آبادی
اصغر جگر کوتھام کے روتی ہے فوج شام
تم تیر کھا کے آئے ہویاتیر مار کے
گلزار بخاری
ہے لہو کا قافلہ اَب تک رواں
اور قاتل، کربلا میں رہ گئے
امجد اسلام امجد
کسی سے اب کوئی بیعت نہیں طلب کرتا
کہ اہل تخت کے ذہنوں میں ڈر حسین کا ہے
محسن نقوی
کہیں رادھا کہیں سیتا کہیں بیاکل سی میرا ہے
کہیں پر کربلا ہے اور کہیں پر رام لیلا ہے
کمار پاشی
کرتی رہے گی پیش شہادت حسینؑ کی
آزادئ حیات کا یہ سرمدی اصول
چڑھ جائے کٹ کے سر ترا نیزے کی نوک پر