حیدرآباد:اردو ادب کے مشہور و معروف شاعر منور رانا نے ماں کے حوالے سے کئی شعر کہے ہیں۔ منور رانا نے اس وقت غزل کے مفہوم کو بدل کر رکھ دیا اور ایک ایسے وقت میں مشاعروں کے منچ سے ماں کے حوالے سے غزل کہنا شروع کیا، جس وقت غزل میں محبوبہ کی تعریف، اس کے لبوں و رخسار پر غزلیں کہی جاتی تھیں۔ اس وقت منور رانا پر کافی لوگوں نے انگلیاں اٹھائی، لوگوں نے سوال کرنا شروع کردیا کہ آپ یہ کس طرح کی غزل کہہ رہے ہیں؟ جب کہ غزل کے معنی ہی محبوبہ سے باتیں کرنے کے ہوتے ہیں؟
اس وقت منور رانا نے جواب دیا تھا کہ میں دنیا کے کسی ڈکشنری کو نہیں مانتا، شاعری میں جو محبوبہ ہوتی ہے وہ دنیا کی سب سے خوبصورت عورت ہوتی ہے۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ اگر تلسی داس کے محبوب بھگوان رام ہو سکتے ہیں، ایک خراب شکل و صورت والی لڑکی ہماری محبوبہ ہو سکتی ہے تو میری محبوب میری ماں کیوں نہیں ہو سکتی۔
مدرس ڈے کے موقع پر ماں کے حوالے سے منور رانا کے کچھ مشہور اشعار ملاحظہ فرمائیں...
ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺩﮬﻮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ
ﻣﺎﮞ ﺑﮩﺖ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺭﻭ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﻮﻧﭽﮭﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﺴﯽ ﺩﻥ ﺁﻧﺴﻮ
ﻣﺪﺗﻮﮞ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮬﻮﯾﺎ رﻭﭘﭩﮧ ﺍﭘﻨﺎ
ﻟﺒﻮﮞ ﭘﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﺪ ﺩﻋﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ
ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﮞ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺧﻔﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﺍﺫﺍﮞ ﺑﻼﺗﯽ ﮨﮯ
ﺷﺮﯾﺮ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﻣﺎﮞ ﺑﻼﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﻣﻼ ﺣﺼّﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮐﺎﮞ ﺁﺋﯽ
ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﺮﮮ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﮞ ﺁﺋﯽ
ﺍﮮ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﮯ ﻣﻨﮧ ﺗﯿﺮﺍ ﮐﺎﻻ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ
ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻮﻝ ﺩی ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺎﻻ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ
ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ
ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻟﭙﭧ ﺟﺎﺅﮞ ﮐﮧ ﺑﭽﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ
ﻣﺮﺍ ﺧﻠﻮﺹ ﺗﻮ ﭘﻮﺭﺏ ﮐﮯ ﮔﺎﺅﮞ ﺟﯿﺴﺎ ﮨﮯ
ﺳﻠﻮﮎ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺳﻮﺗﯿﻠﯽ ﻣﺎﺅﮞ ﺟﯿﺴﺎ ﮨﮯ
ﺣﺎﺩﺛﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﺮﺩ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﭽﺎ ﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ
ﻣﺎﮞ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺏ ﺗﯿﺮﯼ ﺩﻋﺎ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ