اردو

urdu

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Mar 8, 2024, 7:37 AM IST

ETV Bharat / literature

خواتین کا عالمی دن 2024: خواتین مصنفین کی تحریکی کاموں پر ایک نظر

International Women's Day 2024: پوری دنیا میں 8 مارچ کو یومِ خواتین بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ آئیے آج یوم خواتین پر خواتین مصنفین کے بارے میں اور ان کی کچھ خصوصی اقتباس کا ذکر کرتے ہیں، جنہیں پڑھ کر قاری مسحور ہو جاتا ہے۔

International Women's Day 2024
خواتین کا عالمی دن 2024: خواتین مصنفین کی تحریکی کاموں پر ایک نظر

حیدرآباد: 'میں نے جب بھی اسے دیکھا، لوہا دیکھا، لوہے کی طرح تپتے دیکھا...' کیدارناتھ اگروال کی ایک عورت کے لیے لکھی گئی یہ نظم دل کو چھو جاتی ہے۔ لیکن خواتین کے عالمی دن کے موقع پر، خواتین مصنفین کی کچھ خصوصی اقتباس کا ذکر کرتے ہیں، جنہیں پڑھ کر قاری مسحور ہو جاتا ہے۔ یہ خواتین مصنفین کی تحریر کردہ متاثر کن تخلیقات ہیں جسے پڑھ کر قاری کا ذہن خوش ہو جاتا ہے۔ اس لیے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ان کے ان شاندار تصنیفات کو ضرور پڑھیں۔

عصمت چغتائی:

عصمت چغتائی نے اردو زبان و ادب پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی تخلیقات کے ذریعے عورتوں کی نفسیات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ نہایت ہی سلیس لب و لہجے میں ان کے افسانوں نے معاشرے کی سچائی کو پیش کیا ہے۔ ان کا قلم کبھی نہیں لڑکھڑایا اور ایک کے بعد ایک بے باک افسانے لکھتی رہیں۔ ادب کو انہوں نے حقیقت پسندانہ ادب کے ذریعہ بیسویں صدی کے اردو ادب میں ایک اہم آواز کے طور اپنی شناخت بنائی۔

21 اگست 1915 میں ان کی پیدائش اتر پردیش کے بدایوں میں ہوئی تھی ان کے قلم نے جس شجاعت کا مظاہرہ کیا، وہ بے نظیر ہے۔ اردو ادب کو وقت سے آگے لے جانے والے افسانہ نگاروں کی صف میں وہ سب سے آگے نظر آتی ہیں۔

عصمت چغتائی کے حوالے سے پطرس بخاری لکھتے ہیں کہ "ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ عصمت کی شخصیت اردو ادب کے لئے باعث فخر ہے۔ انھوں نے بعض ایسی پرانی فصیلوں میں رخنے ڈال دیئے ہیں کہ جب تک وہ کھڑی تھیں کئی رستے نظروں سے اوجھل تھے۔ اس کارنامے کے لئے اردو خوانوں کو ہی نہیں بلکہ اردو کے ادیبوں کو بھی ان کا ممنون ہونا چاہیے۔"

قرۃ العين حيدر:

قرۃ العين حيدر 20 جنوری 1926 میں اترپردیش کے علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ تقسیم ہند کے بعد قرۃ العین حیدر کا خاندان پاکستان چلا گیا۔ 1959 میں ان کا ناول آگ کا دریا منظر عام پر آیا جس پر پاکستان میں بہت ہنگامہ ہوا۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے بھارت واپس جانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ بطور صحافی کام کرتی رہیں اور افسانے اور ناول بھی لکھتی رہیں۔

آخرِ شب کے ہم سفر کے لیے 1989 میں انہیں بھارت کے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ انعام سے بھی نوازا گیا جبکہ بھارتی حکومت نے انہیں 1985 میں پدم شری اور 2005 میں پدم بھوشن جیسے اعزازات بھی دیے۔ 11 سال کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنے والی قرۃ العین حیدر کو اردو ادب کی ورجینیا وولف کہا جاتا ہے۔ انہوں نے پہلی بار اردو ادب میں اسٹریم آف کونشیئسنس تکنیک کا استعمال کیا تھا۔ اس تکنیک کے تحت کہانی ایک ہی وقت میں مختلف سمت میں چلتی ہے۔

امرتا پریتم:

امرتا پریتم کو پنجاب کی پہلی شاعرہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ امریتا پریتم کی پیدائش 1919 میں پنجاب میں واقع گجراں والا میں ہوئی تھی۔ ان کا بچپن اور ابتدائی تعلیم لاہور میں ہوئی۔ امریتا پریتم کو بچپن سے ہی شاعری اور مضمون لکھنے کا شوق تھا، انکی اہم ناول پانچ برس لمبی سڑک، پنجر، ادالت، کورے کاغز، انچاس دن، ساگر اور سیپیاں نے انہیں ادبی دنیا میں لافانی کر دیا۔

امریتا پریتم کو کئی اعزاز سے نوازا گیا ہے، 1957 میں ساہیتہ اکیڈمی ایوارڈ، 1988 میں بلغاریہ ویروو ایوارڈ اور 1982 میں بھارت کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ گیان پیٹھ ایوارڈ سے بھی انھیں نوازا گیا۔

مترو مارجانی: کرشنا سوبتی

کرشنا سبتی کا شمار ہندی ادب کے ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنہیں شاید ہی کوئی کتاب پڑھنے والا نہیں پڑھا ہو۔ کتاب مرجانی کرشنا سوبتی کی خواتین جنسیت کی آزادانہ نمائندگی کا مظہر ہے۔ اس کتاب کو 1967 میں شائع ہونے کے بعد عوام کے غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر آپ نے اس حساس مسئلے پر لکھی کرشنا سوبتی کی کتاب نہیں پڑھی تو ضرور پڑھیں۔

دیوی: مرنال پانڈے

مصنفہ مرنال پانڈے خواتین کو کافی مضبوط مانتی ہیں اور وہ خواتین کو مضبوط ارادے کی جنگجو بھی مانتی ہیں۔ مرنال پانڈے نے اپنی تصنیفات میں پدرانہ معاشرے کو بھی چیلنج کیا ہے۔

پچپن کھمبے لال دیواریں: اوشا پریمودا

اوشا پریمودا ہندی کے سرکردہ ناول نگاروں اور شارٹ اسٹوری لکھنے والوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی کہانیاں خواتین کی زندگی کی پیچیدگیوں کے گرد گھومتی ہیں، خاص طور پر روایتی پس منظر سے تعلق رکھنے والی۔ پچپن کھمبے لال دیواریں حقیقی زندگی میں بھارتی خواتین کی مشکلات کی تخلیق ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

چودہ پھیرے: شیوانی

یہ ایک متکبر اور غیر سنجیدہ سرکاری اہلکار پر خوبصورتی سے لکھی گئی اسٹوری ہے۔ شیوانی کی 'چودہ پھیرے' ایک مثالی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ عورت کے ساتھ اس کی مرضی کے مطابق سلوک کرنے اور اس کی طرف سے فیصلے لینے کے حق کے مرد کے دعوے کی تنقید بھی ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details