اردو

urdu

ETV Bharat / international

ایران اسرائیل تنازعہ اور موجودہ حالات میں اس کے نتائج - The Iran Israel conflict

دمشق میں اسرائیل کی جانب سے ایران کے سفارت خانے پر حملہ کیا گیا جس میں سات فوجی اہلکار جاں بحق ہو گئے۔ ایران نے بھی جوابی کاروائی کرتے ہوئے اسرائیل پر حملہ کردیا حالانکہ اس سے اسرائیل کا کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا ہے۔ البتہ اس سے خطہ میں کشیدگی ضرور پیدا ہو گئی ہے۔ امریکہ اور دوسرے ممالک نے بھی اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ ایران پر حملہ کرکے مزید کشیدگی نہ پھیلائے۔ ایران اسرائیل تنازعہ پر میجر جنرل ہرشا ککّڑ کا مضمون۔

The Iran Israel conflict and its consequences
The Iran Israel conflict and its consequences

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Apr 15, 2024, 5:08 PM IST

حیدرآباد: اسرائیل کی جانب سے دمشق میں ایران کے سفارت خانے کے کمپاؤنڈ پر حملے کے تقریباً دو ہفتے بعد، جس میں اس کی قدس فورس کے کمانڈر سمیت سات فوجی اہلکار جاں بحق ہوگئے تھے، تہران نے جوابی کارروائی کی ہے۔ اس نے اپنے ہمسایہ ممالک کی فوجی طاقت کے ساتھ مل کر حملہ کرنے کے بجائے اکیلے ہی اپنی سرزمین سے اسرائیل پر فضائی حملہ کیا۔ ایرانی ترجمان نے کہا کہ ہم نے، اسرائیل کے زریعہ شام میں ایرانی قونصل خانے کو نشانہ بنانے کے جرم میں یہ جوابی کاروائی کی اور اسرائیل پر ڈرون اور میزائلوں کے ذریعے آپریشن شروع کیا تاکہ مقبوضہ علاقوں میں مخصوص اہداف کو نشانہ بنایا جا سکے۔

خبروں میں بتایا گیا ہے کہ ایران کے تمام 185 ڈرون اور 35 کروز میزائل پرواز کے دوران تباہ ہو گئے جبکہ 110 میں سے 103 میزائل مار گرائے گئے۔ یہ عمل امریکہ، برطانیہ، فرانس، اردن اور اسرائیل کی طرف سے مربوط کارروائیوں کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔

اسرائیلی دفاعی ترجمان نے بتایا کہ بعض میزائلوں نے نیواتیم ایئربیس پر حملہ کیا جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ میزائل حملے کے فوراً بعد ایئربیس سے ہوائی جہاز کی کارروائیوں کے مناظر سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے۔

تہران حکومت پر ردعمل کا دباؤ تھا۔ امریکہ اور اسرائیل کو معلوم تھا کہ ایرانی سرزمین سے حملہ آنے والا ہے۔ صدر بائیڈن نے تبصرہ کیا تھا کہ 'میں مختلف زرائعوں کی خبروں پر منحصر رہنا نہیں چاہتا تھا لیکن میری توقع کے بجائے ایک دن کی تاخیر سے ایران کی جانب سے یہ کاروائی ہوئی۔

اسرائیل نے بھی کہا کہ حملے میں ایک دن کی تاخیر ہوئی کیونکہ ایران کے اعلیٰ ترین عہدے داروں کی جانب سے ایران کو اس حملے کے لئے منظوری لینا باقی تھی۔ اس طرح جب فضائی حملہ کیا گیا تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ نیتن یاہو نے ٹویٹ کیا، 'ہم نے روکا، ہم نے ان کو پیچھے ہٹا دیا اور آگے بھی ہم مل کر جیتیں گے۔ کیا واشنگٹن اور تل ابیب نے حملے کے ممکنہ وقت کا اندازہ خفیہ جانکاری کی بنا پر لگایا تھا۔ یا ایران نے جان بوجھ کر ایسی کوئی اطلاع دی تھی جس سے مذید کشیدگی نہ بڑھے۔

اس سال جنوری میں ایران اور پاکستان کے سرحدی حملوں نے بھی اسی طرز پر عمل کیا۔ ایران نے حملہ کیا، پاکستان نے جوابی کارروائی کی، پھر سفارت کاری نے کام سنبھالا، کشیدگی ختم ہوئی اور حالات معمول پر آ گئے۔ دونوں ممالک میں سے کسی بھی ملک نے پناہ گزینوں یا دہشت گردوں کے کیمپوں میں اپنے ملک کے علاوہ دیگر ملک کے باشندوں کو قتل نہیں کیا۔

اسرائیل کے ہمسایہ ممالک اس تنازعہ کو بڑھنے اور خطے کو اپنی لپیٹ میں لینے سے روکنے کے لیے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ تنازعہ میں الجھنے سے بچنے کے لیے اور امریکا کو اس میں نہ شامل ہونے کے لیے، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان اور کویت اور قطر نے واشنگٹن کو اپنے اپنے ملک میں اپنے ہوائی اڈوں اور ایران پر حملے کرنے کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے سے منع کر دیا ہےجو اختیارات کو محدود کرنے کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے۔

اپنے حملے کے فوراً بعد ایران نے اعلان کیا کہ یہ حملہ دمشق میں ہمارے سفارت خانہ پر حملےکی جوابی کارروائی سمجھی جائے۔ اس نے مزید کہا کہ اگر اسرائیلی حکومت نے ایک اور غلطی کی تو ایران کا ردعمل کافی زیادہ سخت ہوگا۔ ایران نے مزید کہا کہ یہ ایران اور اسرائیلی حکومت کے درمیان تنازعہ ہے جس سے امریکہ کو دور رہنا چاہیے۔

یہ پیغام اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ تہران کے اقدامات اسرائیلی انفراسٹرکچر کو نشانہ بنانے اور جانی نقصان پہنچانے کے بجائے محض ایک احساس کرانے کے لئے تھا۔ یہ ایرانی فوجی طاقت کا بھی مظاہرہ تھا۔ ایران، فلسطین، لبنان، شام اور عراق میں جشن کی تقریبات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ تہران نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔

اس حملے نے اسرائیل کو ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کا موقع فراہم کیا ہے، جو ایک طویل عرصے سے زیر التوا ارادہ ہے، تاہم فضائی حدود کی پابندیوں اور امریکی مداخلت کے پیش نظر یہ آسان نہیں ہوگا۔ اسرائیل کی طرف سے ایسی کوئی بھی کوشش پورے مشرق وسطیٰ میں تنازع کو بڑھا دے گی۔ عرب ممالک کو ایران کے ساتھ تعلقات ختم کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔

ایرانی ردعمل کا موازنہ بالاکوٹ حملے سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ بھارت نے بالاکوٹ پر حملہ کر کے پاکستان کو اپنا ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور کیا۔ اس نے بھارتی سرزمین پر بہت ہی کم طاقت کا بم گرا کر جوابی کارروائی کی، جبکہ بھارت کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ونگ کمانڈر ابھینندن کو رہا بھی کیا۔ بعد میں بھارت کی خاموشی کو پاکستان نے اپنی فتح سمجھا۔ تاہم پاکستان میں دل کی گہرائیوں تک جارحیت کا بھارتی پیغام درج کر لیا گیا۔ عرب ریاستوں میں اس وقت بھی اسی طرح کی تقریبات منائی گئی تھیں۔

ایک بڑا نتیجہ یہ ہے کہ امریکی کانگریس اسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی کو مزید روک نہیں سکتی، جو نیتن یاہو کے لیے ایک بڑا فائدہ ہے۔ یورپ کی حمایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کو اضافی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ اسرائیل پر کشیدگی سے بچنے کے لیے دباؤ ہو گا۔ بائیڈن انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے لیکن وہ ایران پر کسی حملے میں حصہ نہیں لے گی۔ یہ ایران پر کسی بھی اسرائیلی جوابی حملے کی بھی مخالفت کرتا ہے۔ امریکہ نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر وہ مزید جنگ میں آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے آگاہ کرے۔

نیتن یاہو جانتے ہیں کہ ان کی حکومت صرف اس وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب تک تنازعہ جاری ہے۔ ان کے استعفے کے مطالبات اٹھ رہے ہیں۔ ان کے مشیر، تہران کی طرف سے فراہم کردہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کشیدگی بڑھانے کی سفارش کر رہے ہیں۔ اگر تل ابیب جوابی کارروائی نہیں کرتا تو ایران فخر کرے گا کہ وہ واحد عرب ریاست ہے جس نے اسرائیل پر حملہ کیا اور اسے خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ مگر اسرائیل نے ابھی جوابی کارروائی کو مسترد نہیں کیا ہے، اس نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ وہ 'جب صحیح وقت آئے گا' جوابی حملہ کرے گا۔

نیتن یاہو کو اسرائیل کی پالیسی واضح کرنےکی ضرورت ہے۔ یا تو اسرائیل غزہ پر توجہ دے اور اس کے قیدیوں کو رہا کرائے یا پھر تنازع کو آ گے بڑھائے۔ جنگ میں توسیع اسرائیل کو ان ممالک کی طرف سے بھی الگ تھلگ کر دے گی جو اس کی ابھی حمایت کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ بھی نہیں چاہتا ہے کہ یہ جنگ ہو۔

بھارت نے اپنی طرف سے تحمل سے کام لینے پر زور دیا ہے۔ اس کے دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے، ہم دونوں ممالک سے فوری طور پر کشیدگی میں کمی، تحمل سے کام لینے، تشدد سے پیچھے ہٹنے اور سفارت کاری کے راستے پر واپس آنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر جے شنکر نے اسرائیل اور ایران دونوں جگہ اپنے ہم منصبوں سے بات کرتے ہوئے تحمل کا مطالبہ کیا۔ قطر، پاکستان، وینزویلا اور چین سمیت دیگر ممالک نے بھی امن کا مطالبہ کیا جبکہ ایران کی اسرائیل پر جوابی کاروائی پر تنقید کرنے سے انکار کیا۔

یورپی یونین، برطانیہ، فرانس، میکسیکو، جمہوریہ چیک، ڈنمارک، ناروے اور ہالینڈ نے ایران کے حملے کی مذمت کی۔ جی 7 نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ 'ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ایران اور اس کے ہمسایہ اپنے حملے بند کریں۔

اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں تشدد کو کم کرنے پر زور دینے کے علاوہ کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا۔ ایران نے اپنے اقدامات کا دفاع کیا، جب کہ مغرب اور اسرائیل نے ایران پر تنازع کو آگے بڑھانے کا الزام لگایا۔ روس اور چین کے ساتھ یو این ایس سی میں ایران کے خلاف کوئی قرارداد ممکن نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی ایران کے سفارتی کمپاؤنڈ پر اسرائیل کے حملے کی مذمت نہیں کی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ نہ تو دنیا اور نہ ہی خطہ دوسری جنگ کے حق میں ہو سکتا ہے۔

پاکستان جس نے اپنی ایران پاکستان پائپ لائن کے لیے امریکہ سے چھوٹ مانگی تھی اب اسے نہیں ملے گا، جس سے اس کی مالی پریشانیوں میں اضافہ ہوگا۔ اگر پائپ لائن ستمبر 2024 تک مکمل نہیں ہوئی تو اسے 18 بلین ڈالر جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ تاخیر اس لیے ہوئی ہے کہ پاکستان کو خدشہ ہے کہ وہ امریکا کی جانب سے ایران پر عائد پابندیوں کی زد میں آجائے گا۔

دریں اثناء اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات ایک بار پھر رک گئے ہیں، جس سے اسرائیل کے پاس بہت کم آپشن رہ گئے ہیں لیکن وہ پھر بھی سات ماہ سے لڑائی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ تہران نے آبنائے ہرمُز کے قریب اسرائیل سے منسلک ایک بحری جہاز کو پکڑ لیا ہے، جو مبینہ طور پر 17 بھارتیوں کے ساتھ بھارت کی طرف آ رہا تھا، ایران کے اس عمل سے کشیدگی پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ کیا ہے حالانکہ بھارتی عملے کی رہائی کے لیے بات چیت جاری ہے۔

اطلاعات کے مطابق دونوں ممالک اس بات پر غور کر رہے ہیں جو ایک اچھی علامت سمجھی جا سکتی ہے کیونکہ ایران اور اسرائیل دونوں نے تجارتی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود کو دوبارہ کھول دیا ہے۔ کیا یہ واقعی ایک نرم زاویہ ہے یا اس سے پہلے ایک اور طوفان آنا باقی ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details