غزہ: 19جنوری سے غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ نافذ العمل ہے۔ تین یرغمالیوں کے بدلے 90 فلسطینیوں کو اسرائیل نے رہا کر دیا ہے۔ غزہ کے خیمہ کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور فلسطینی اب تباہ شدہ مکانات کا رخ کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں ایک مرتبہ پھر حماس تیزی سے غزہ کا کنٹرول سنبھالتے نظر آرہی ہے۔
غزہ کی سڑکوں پر حماس کے جنگجو اور پولیس:
اتوار کے روز تین اسرائیلی یرغمالیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کرنے کا منظر کافی فلمی تھا۔ اس وقت درجنوں نقاب پوش حماس کے جنگجوؤں نے کیمروں کے سامنے پریڈ کی اور گاڑیوں کو گھیرے ہوئے سیکڑوں کے ہجوم کو روک لیا۔
غزہ کے دیگر مقامات کے مناظر اس سے بھی زیادہ قابل ذکر تھے۔ حماس کے زیرانتظام ہزاروں پولیس اہلکار وردی میں دوبارہ نمودار ہوئے۔
ایک مقامی محمد عابد نے کہا کہ، اسرائیلی حملوں کا نشانہ بننے سے بچنے کے لیے، بغیر وردی کے پولیس سارا وقت یہاں موجود رہی ہے۔
دیگر رہائشیوں نے بتایا کہ پولیس نے پوری جنگ کے دوران اسپتالوں اور دیگر مقامات پر دفاتر بنائے تھے، جہاں لوگ جرائم کی اطلاع دے سکتے تھے۔
جنگ کے دوران چھپے ہوئے حماس کے لیڈران اب عوام کے سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
حماس نہ صرف اسرائیل کی 15 ماہ کی تباہ کن فوجی مہم سے بچ پائی ہے بلکہ یہ تباہ شدہ ساحلی علاقے پر مضبوطی سے کنٹرول میں ہے۔
حماس کا دوبارہ غزہ پر کنٹرول اس بات کو ثابت کر رہا ہے کہ اسرائیل کی تمام طاقت کے باوجود، صیہونی فوج حماس کو اقتدار سے ہٹانے میں ناکام رہی ہے۔
غزہ سے حماس کو اقتدار سے ہٹانا اور حماس کا نام و نشان مٹانا اسرائیل کا ایک مرکزی جنگی مقصد تھا۔
حماس کا اس طرح دوبارہ غزہ پر کنٹرول حاصل کرنا اسرائیل کے لیے تشویش کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسا خدشہ ہے کہ، اس سے جنگ دوبارہ شروع ہو، لیکن نتائج ایک جیسے ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے، اسماعیل ہنیہ سمیت حماس کے کئی اعلیٰ لیڈر اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ایسا مانا جا رہا تھا کہ ان نقصانات کے بعد حماس کمزور ہوئی ہے۔
حماس ایک تحریک ہے جس کی جڑیں کافی گہری ہیں:
رائے عامہ کے جائزوں سے ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کی صرف ایک اقلیت حماس کی حمایت کرتی ہے۔ لیکن اسلامی مسلح گروپ حماس اسرائیل کے وجود کو قبول نہیں کرتا، یہی وجہ ہے کہ فلسطینی معاشرے میں گہری جڑیں رکھتی ہے۔ حماس کا ایک مسلح ونگ، ایک سیاسی جماعت، میڈیا اور خیراتی ادارے ہیں۔ اس کا قیام 1980 کی دہائی کے اواخر میں ہوا تھا۔
کئی دہائیوں تک، حماس نے ایک منظم شورش کے طور پر کام کیا، جو خود اسرائیل میں اسرائیلی افواج اور خود کش بم حملے کرتی تھی۔ اس کے کئی سرکردہ رہنما مارے جا چکے ہیں، اور فوری طور پر ان کی جگہ لے لی گئی ہے۔ اس نے 2006 کے پارلیمانی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی، اور اگلے سال اس نے مغربی حمایت یافتہ فلسطینی اتھارٹی سے غزہ کو چھین لیا۔
پھر حماس نے وزارتوں، پولیس اور سویلین بیوروکریسی کے ساتھ ایک مکمل حکومت قائم کی۔ اس کی سیکورٹی فورسز نے تیزی سے غزہ کے طاقتور خاندانوں کو صف آرا کیا اور حریف مسلح گروپوں کو کچل دیا۔ انہوں نے اختلاف رائے کو بھی خاموش کرایا اور کبھی کبھار ہونے والے احتجاج کو پرتشدد طریقے سے منتشر کیا۔
حماس اسرائیل کے ساتھ پچھلی چار جنگوں کے باوجود اقتدار میں رہی۔ ایران کی مدد سے اس نے اپنی صلاحیتوں میں مسلسل اضافہ کیا، اپنے راکٹوں کی رینج کو بڑھایا اور اسرائیلی فضائی حملوں سے بچنے کے لیے گہری اور لمبی سرنگیں بنائیں۔ 7 اکتوبر 2023 تک، اس کے پاس منظم بٹالین میں دسیوں ہزار کی فوج تھی۔
اس ماہ کے اوائل میں امریکہ کے سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ حماس نے جنگ کے دوران جتنے جنگجو کھو دیے ہیں، تقریباً اتنے ہی جنگجو بھرتی کیے ہیں۔
فلسطینی امور کے ایک اسرائیلی ماہر اور سابق ملٹری انٹیلی جنس افسر مائیکل ملشٹین نے کہا کہ، حماس کے پاس اب 7 اکتوبر کی طرز کا حملہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے لیکن وہ اپنی باغی جڑوں میں واپس آگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس ایک گرگٹ ہے اس نے حالات کے مطابق اپنے رنگ بدلے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ، جنگ حماس کی کامیابی کے مضبوط تصور کے ساتھ ختم ہو رہی ہے۔
حماس کو جڑ سے اکھاڑنے کی اسرائیل کی تمام تر کوششیں ناکام:
حماس کے فلسطینی ناقدین طویل عرصے سے کہتے رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔
ان کا مؤقف ہے کہ، اگر فلسطینیوں کے پاس اسرائیل کے کئی دہائیوں سے جاری قبضے کو ختم کرنے کا کوئی متبادل راستہ ہو تو فلسطینیوں کے حماس سے علیحدگی اختیار کرنے کا زیادہ امکان ہو گا۔ تاہم حماس نے جنگ کے دوران خود کو مزید مضبوط کر لیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے امریکہ اور دوست عرب ممالک کی طرف سے غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر حکومت کرنے کے لیے ایک اصلاح شدہ فلسطینی اتھارٹی کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ اس کے بجائے، انھوں نے دونوں خطوں پر کھلے عام سیکورٹی کنٹرول برقرار رکھنے کا عزم کیا ہے۔
ایک تجربہ کار اسرائیلی صحافی نے کہا کہ نتن یاہو کا اگلے دن کے لیے منصوبہ بندی سے انکار اس جنگ کی سب سے بڑی شکست تھی۔
تجربہ کار اسرائیلی صحافی نے ایک اخبار میں لکھا کہ، اسرائیل ایک ڈراؤنے خواب سے اسی ڈراؤنے خواب کی طرف واپس لوٹ رہا ہے۔ انہوں نے لکھا، حماس اقتدار میں رہنے والی ہے اور مزید سرنگیں بناتی رہے گی اور کسی مقامی متبادل کے سامنے آئے بغیر مزید افراد کو بھرتی کرے گی۔
نتن یاہو نے دھمکی دی ہے کہ اگر اسرائیل کے اہداف پورے نہ ہوئے تو جنگ بندی کے پہلے چھ ہفتے کے مرحلے کے بعد دوبارہ جنگ شروع کر دی جائے گی، جب کہ حماس نے کہا ہے کہ وہ دیرپا جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی انخلاء کے بغیر درجنوں باقی ماندہ قیدیوں کو رہا نہیں کرے گی۔
یہ سوچنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایک اور فوجی مہم ایک مختلف نتیجہ لائے گی۔
اکتوبر کے اوائل میں، اسرائیلی فورسز نے بیت لاہیا، بیت حنون اور جبالیہ کے شمالی قصبوں کو سیل کر دیا، تقریباً تمام انسانی امداد کو روک دیا، ہزاروں افراد کو نقل مکانی پر مجبور کیا اور فرار ہونے والے عینی شاہدین کے مطابق، اسکولوں اور پناہ گاہوں سمیت ان کے راستے میں تقریباً ہر ڈھانچے کو تباہ کر دیا گیا۔
حماس کے جنگجوؤں کو دوبارہ منظم ہونے سے روکنے کے لیے اسرائیلی فوج نے بیت لاہیا، بیت حنون اور جبالیہ کے شمالی قصبوں پر بڑی کارروائیاں کی تھیں لیکن صرف اسی ماہ شمالی غزہ میں کم از کم 15 اسرائیلی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
جنگ بندی کے بعد غزہ کے حالات:
غزہ کی وزارت صحت نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 72 لاشیں اسپتالوں میں لے جائی گئی ہیں، جن میں سے تقریباً سبھی جنگ بندی سے قبل حملوں سے بازیاب ہو چکے ہیں۔ لاشوں کی ایک نامعلوم تعداد ناقابل رسائی ہے کیونکہ وہ شمالی غزہ میں ہیں، جہاں تک رسائی محدود ہے، یا بفر زونز میں جہاں اسرائیلی افواج موجود ہیں۔
مقامی صحت کے حکام کے مطابق غزہ میں 15 مہینوں کی اسرائیلی جارحیت میں 47,000 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔ وہیں بغیر کوئی ثبوت فراہم کیے اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنی فوجی مہم میں 17,000 سے زیادہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔
غزہ میں پیر کے روز جنگ بندی کے دوسرے دن امداد کے 900 سے زائد ٹرک داخل ہوئے، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ، یہ تعداد دو ملین سے زیادہ لوگوں کی آبادی کے لیے خوراک، ادویات اور دیگر ضروریات کی فراہمی کے لیے معاہدے میں طلب کیے گئے 600 ٹرکوں سے نمایاں طور پر زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: