اردو

urdu

ETV Bharat / international

مضبوط اور مستحکم تعلقات مشترکہ مفادات کی خدمت کرتے ہیں: پی ایم مودی کے انٹرویو پر چین کا رد عمل - Sound And Stable Ties

پی ایم مودی کی طرف سے بھارت چین سرحدی صورت حال کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت کے اظہار کے بعد چین نے بھارت کے ساتھ مضبوط اور مستحکم تعلقات کی اہمیت پر زور دیا۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے کہا کہ چین پی ایم مودی کی بات کو مثبت طریقے سے دیکھتا ہے۔

China Reacts To PM Modi's Comments
China Reacts To PM Modi's Comments

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Apr 12, 2024, 12:17 PM IST

بیجنگ: چین نے جمعرات کے روز کہا کہ "مضبوط اور مستحکم تعلقات" چین اور بھارت کے مشترکہ مفادات کے حق میں ہیں۔ یہ رد عمل چین نے وزیر اعظم نریندر مودی کے اس انٹرویو پر دیا جس میں مودی نے کہا تھا کہ بیجنگ کے ساتھ تعلقات اہم ہیں اور سرحدوں پر صورت حال کو پرامن رکھنے کے لئے توجہ دی جانی چاہیے۔

نیوز ویک میگزین کے ساتھ ایک انٹرویو میں وزیر اعظم مودی نے امید ظاہر کی ہے کہ سفارتی اور فوجی سطح پر مثبت اور تعمیری سوچ کے ذریعے، دونوں ممالک سرحدوں پر امن و سکون کو بحال اور برقرار رکھنے کے قابل ہو جائیں گے۔

جب مودی کے بیان پر چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ سے ان کا ردعمل پوچھا گیا تو انہوں نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ بھارتی وزیر اعظم کے بیان کو چین نے مثبت طریقے سے لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ چین اور بھارت کے مضبوط اور مستحکم تعلقات دونوں فریقوں کے مشترکہ مفادات کے لئے ہی بہتر ہیں جو خطے یا اس کے باہر امن اور ترقی کے لیے دونوں ممالک کے لئے سازگار رہیں گے۔ اپنے انٹرویو میں، جو کہ ماضی قریب میں کسی امریکی میگزین کو دیا جانے والا پہلا انٹرویو ہے، مودی نے کہا کہ بھارت کے لیے چین کے ساتھ تعلقات بہت اہم ہیں۔

"یہ میرا یقین ہے کہ ہمیں اپنی سرحدوں پر صورتحال کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری دوطرفہ بات چیت میں جو بھی رکاوٹیں ہیں ان کو فوری طور پر حل کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید زور دیا کہ بھارت اور چین کے درمیان مستحکم اور پرامن تعلقات نہ صرف دونوں ممالک کے لئے بہتر ہوں گے بلکہ اس کا اثر پوری دنیا پر پڑے گا.’’

وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ نے کہا کہ سرحدی صورتحال "بھارت چین تعلقات کی مکمل نمائندگی نہیں کرتا ہے۔ اسے دوطرفہ تعلقات میں مناسب طریقے سے رکھا جانا چاہئے اور اسے مناسب طریقے سے منظم بھی کیا جانا چاہئے۔

ماؤ نے کہا ہم امید کرتے ہیں کہ بھارت چین کے ساتھ اسی سمت میں کام کرے گا، دوطرفہ تعلقات کو حکمت عملی کی بلندیوں اور طویل مدتی نقطہ نظر سے سنبھالے گا، باہمی اعتماد میں بھی اضافہ کرے گا، بات چیت اور تعاون پر قائم رہے گا، اختلافات کو صحیح طریقے سے حل کرے گا اور دو طرفہ تعلقات کو مضبوط اور مستحکم راستے پر لے جائے گا۔

5 مئی 2020 کو مشرقی لداخ کی سرحد پر پینگونگ تسو (جھیل) کے علاقے میں پرتشدد جھڑپ کے بعد سے بھارت اور چین کے درمیان تعلقات، تجارتی تعلقات کو چھوڑ کر، بگڑ گئے تھے۔ جس کو حل کرنے کے لیے دونوں فریقین اب تک کور کمانڈر کی سطح پر بات چیت کے 21 دور پورے کر چکے ہیں۔

چینی فوج کے مطابق، دونوں فریقین نے اب تک چار نکات سے علیحدگی اختیار کرنے پر اتفاق کیا ہے، جس میں گالوان وادی، پینگونگ جھیل، ہاٹ اسپرنگ اور جیانان دبن (گوگرہ) وغیرہ شامل ہیں۔

بھارت پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ ڈیپسنگ اور ڈیمچوک کے علاقوں سے اپنی فوجیں نکالے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک سرحدی حالات غیر مستحکم رہیں گے، چین کے ساتھ تعلقات بحال نہیں ہوسکتے۔

یہ بھی پڑھیں:

ABOUT THE AUTHOR

...view details