دیر البلاح، غزہ کی پٹی: قطر نے حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کی اپنی اہم کوششوں کو معطل کر دیا ہے۔ 14 مہینوں سے جاری جنگ کے آغاز سے ہی قطر جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے میں اہم ثالث کا کردار ادا کرتا آیا ہے۔ تاہم، گزشتہ مہینوں میں امریکہ، مصر اور خود قطر نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے انتھک کوششیں کیں لیکن کامیاب نہیں ہو سکے، یہی وجہ ہے کہ مایوس ہو کر ہفتے کے قطر نے غزہ کے لیے جنگ بندی کے معاہدے پر پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے ثالثی کی کوششوں کو معطل کر دیا۔
حالانکہ ابھی یہ فوری طور پر واضح نہیں ہوسکا کہ قطر کی میزبانی میں دوحہ میں اپنا دفتر چلا رہی حماس کی بقیہ قیادت کو ملک کو چھوڑنا ہوگا یا نہیں۔ ایسا مانا جا رہا ہے کہ حماس کی بقیہ قیادت ایران یا ترکی منتقل ہو سکتی ہے کیونکہ مزاحمتی تنظیم کے ایران اور ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور اس کے کچھ رہنما اب لبنان میں ہیں۔
تاہم، جنگ بندی کی کوششوں میں دوسرے اہم ثالث مصر کے ایک اہلکار کے مطابق، قطر کے ثالثی کی کوششوں میں واپس آنے کا قوی امکان ہے۔ اس کے مطابق اگر اسرائیل اور حماس کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے سنجیدہ سیاسی آمادگی ظاہر کرتے ہیں تو قطر اس میں دلچسپی ظاہر کر سکتا ہے۔
قطر نے اسرائیل اور حماس پر واضح کر دیا ہے کہ، وہ اس وقت تک ثالثی جاری نہیں رکھ سکتا جب تک کہ نیک نیتی کے ساتھ کسی معاہدے پر بات چیت کرنے سے انکار کیا جائے اور اس کے نتیجے میں حماس کا سیاسی دفتر قطر میں اپنا مقصد پورا نہیں کرے گا۔ اس معاملے پر بریفنگ دیتے ہوئے قطر نے کہا کہ اگر وہ سنجیدہ مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہے تو اسے چھوڑنا پڑے گا۔
واشنگٹن میں ایک امریکی اہلکار نے بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ نے دو ہفتے قبل قطر کو آگاہ کیا تھا کہ دوحہ میں حماس کے دفتر کا جاری آپریشن اب مفید نہیں رہا اور حماس کے وفد کو نکال دیا جانا چاہیے۔
ایک سینئر امریکی اہلکار نے بتایا کہ حماس کی جانب سے جنگ بندی کی آخری تجویز کو مسترد کیے جانے کے بعد قطر نے اس مشورے کو قبول کرتے ہوئے حماس کے وفد کو 10 روز قبل اس فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا۔