اردو

urdu

ETV Bharat / international

رمضان کی آمد سے قبل غزہ جنگ بندی مذاکرات کوئی پیش رفت حاصل کرنے میں ناکام: مصر

غزہ میں جنگ بندی کے لیے کوشش کر رہے امریکہ، قطر اور مصر کو امید تھی کہ رمضان سے پہلے ایک معاہدہ طے پا جائے گا، لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو پایا ہے۔ اسرائیل اور حماس اپنی اپنی شرائط پر قائم ہیں جس ے معاہدے میں کوئی پیشرفت نہیں ہو پارہی۔ رمضان المبارک کا آغاز 10 مارچ کے قریب چاند کی رویت کے لحاظ سے متوقع ہے۔

Etv Bharat
Etv Bharat

By AP (Associated Press)

Published : Mar 6, 2024, 7:53 AM IST

قاہرہ: مصری حکام کے مطابق مقدس مہینے رمضان کے آغاز سے ایک ہفتہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے ایسے میں غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے سلسلے میں حماس کے ساتھ تین روز تک جاری رہنے والے مذاکرات میں منگل کو کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

امریکہ، قطر اور مصر نے ایک معاہدے کی ثالثی کی کوشش میں کئی ہفتے گزار دیے ہیں جس کے تحت حماس چھ ہفتے کی جنگ بندی، کچھ فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور علاقہ کے بے گھر ہو چکے فلسطینیوں کے لیے امداد کی ایک بڑی آمد کے بدلے 40 یرغمالیوں کو رہا کرے گی۔

دو مصری عہدیداروں نے بتایا کہ بات چیت کا تازہ دور منگل کو ختم ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس نے ایک تجویز پیش کی جس پر ثالث آنے والے دنوں میں اسرائیل کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ حکام میں سے ایک نے کہا کہ ثالث بدھ کو حماس کے وفد سے ملاقات کریں گے، جو فی الحال قاہرہ میں ہے۔

حماس نے 100 یرغمالیوں میں سے تمام کو رہا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ حماس 30 یرغمالیوں کی باقیات کو بھی تب تک دینے کے لیے تیار نہیں ہے جب تک کہ اسرائیل غزہ میں اپنی فوجی کارروائی کو ختم نہیں کرتا، غزہ سے انخلاء نہیں کرتا اور بڑی تعداد میں فلسطینی قیدیوں کو رہا نہیں کرتا ہے۔

امریکی حکام نے کہا ہے کہ انہیں شک ہے کہ حماس درحقیقت کوئی معاہدہ چاہتی ہے، کیونکہ اس گروپ نے زندہ یرغمالیوں کے ناموں کی فہرست سمیت کئی ایسی تجویزات کو ماننے سے انکار کر دیا ہے جن کے بارے میں امریکہ اور دیگر کا خیال ہے کہ وہ جائز درخواستیں ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے منگل کو کہا کہ "یہ حماس پر ہے کہ وہ اس بارے میں فیصلہ کرے کہ آیا وہ شمولیت کے لیے تیار ہے۔" بلنکن نے کہا کہ، "ہمارے پاس ایک فوری جنگ بندی کا موقع ہے جو یرغمالیوں کو گھر پہنچا سکتا ہے، جو فلسطینیوں کے لیے اشد ضروری انسانی امداد کی مقدار میں اضافہ کر سکتا ہے اور ایک پائیدار حل کے لیے حالات قائم کر سکتے ہیں۔"

حماس کے سینئر عہدیدار اسامہ حمدان نے منگل کو کہا کہ ان کا گروپ چھ ہفتے کے وقفے کے بجائے مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی افواج کے "مکمل انخلاء" کا مطالبہ کرتا ہے۔ حمدان نے بیروت میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ "ہمارے لوگوں کی سلامتی اور تحفظ صرف ایک مستقل جنگ بندی، جارحیت کے خاتمے اور غزہ کی پٹی کے ایک ایک انچ سے انخلاء سے ہی حاصل ہو گا۔"

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو نے حماس کے مطالبات کو کھلے عام مسترد کر دیا ہے اور بارہا اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ جب تک حماس کو ختم نہیں کیا جاتا اور تمام یرغمالیوں کی واپسی نہیں ہو جاتی اس وقت تک جنگ جاری رہے گی۔ اسرائیل نے مذاکرات کے تازہ دور میں کوئی وفد نہیں بھیجا تھا۔

ایک اسرائیلی اہلکار نے بتایا کہ اسرائیل ابھی تک جنگ بندی معاہدہ کی شرائط میں حماس سے یرغمالیوں کے زندہ رہنے کے ثبوت کے طور پر ناموں کی فہرست کا مطالبہ کر رہا تھا۔ حالانکہ یہ واضح نہیں تھا کہ آیا اس معلومات کو تازہ ترین تجویز میں شامل کیا گیا تھا۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا حماس کے پاس زندہ بچ جانے والے یرغمالیوں کی فہرست ہے، حمدان نے کہا کہ یہ معاملہ مذاکرات سے متعلق نہیں ہے اور اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ اسے مذاکرات میں شامل ہونے سے بچنے کے لیے بہانے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

ثالثوں کو امید تھی کہ رمضان سے پہلے ایک معاہدہ طے پا جائے گا، جو کہ فجر سے شام تک کے روزے کا مہینہ ہے جس میں اکثر اسرائیلی-فلسطینی کشیدگی کو یروشلم میں ایک اہم مقدس مقام تک رسائی سے منسلک دیکھا جاتا ہے۔ رمضان المبارک کا آغاز 10 مارچ کے قریب چاند کی رویت کے لحاظ سے متوقع ہے۔

مصری وزیر خارجہ سامح شکری نے پیر کو کہا کہ "مذاکرات حساس نوعیت کے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ امید یا مایوسی ہے، لیکن ہم ابھی تک اس مقام پر نہیں پہنچے ہیں جہاں سے ہم جنگ بندی حاصل کر سکیں"۔

یہ بھی پڑھیں:

ABOUT THE AUTHOR

...view details