حیدرآباد:ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس ( اے پی سی آر) کی ایک رپورٹ کے مطابق، چار جون کو انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد سے ملک بھر میں مسلم مخالف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ دو جولائی کو جاری ہوئی اس رپورٹ میں لنچنگ، فرقہ وارانہ تشدد اور ریاستی سرپرستی میں مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے تفصیلی واقعات درج کیے گیے ہیں۔
غور طلب ہے کہ اے پی سی آر ایک ایڈوکیسی گروپ ہے جو وکلاء، صحافیوں، محققین، اور پیرا لیگل رضاکاروں پر مشتمل ہے۔ یہ گروپ بھارت میں شہری اور انسانی حقوق کی ترقی کے لیے کام کرتا ہے۔
- اقلیتوں کے خلاف بڑھتے تشدد اور نفرت انگیز واقعات
اے پی سی آر رپورٹ میں آٹھ لنچنگ، چھ ہجومی تشدد، اور تین مسماری کے واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے جو انتخابی نتائج کے بعد سے اب تک پیش آئے۔ گجرات میں 22 جون کو ایک 23 سالہ مسلم شخص، جس کی شناخت سلمان ووہرا کے طور پر کی گئی، جس پر 'انتہا پسندی' کا الزام لگاتے ہوئے ایک گروہ نے بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو مقتول چکھوڈرا میں کرکٹ میچ دیکھنے گیا تھا۔
وہیں چھتیس گڑھ کے رائے پور میں سات جون کو انتہا پسند ہجوم نے تین مسلمانوں پر وحشیانہ حملہ کر کے قتل کر دیا۔ مقتولین کی شناخت صدام قریشی اور اس کے کزن چاند میا خان کے طور پر کی گئی۔ دونوں ضلع سہارنپور کے رہنے والے ہیں۔ جب کہ تیسرے مقتول گڈو خان اترپردیش کے شاملی ضلع کے رہنے والے ہیں۔ یہ تینوں افراد مویشی لے جا رہے تھے جہاں رائے پور میں انتہا پسند ہجوم نے ان کا پیچھا کیا اور ان پر حملہ کر دیا۔ اس واقعہ میں دو کی موقعے پر ہی موت ہو گئی، جب کہ ایک تیسرا شخص کوما میں چلا گیا تھا جس نے دس دن بعد دم توڑ دیا۔
اس کے علاوہ علی گڑھ میں 18 جون کو اورنگزیب عرف فرید کے نام کے ایک 35 سالہ مسلم شخص کو ایک ہجوم نے بے دردی سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا، جس سے مغربی اترپردیش کے اس حساس شہر میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی۔ چونکانے والی بات یہ ہے کہ لنچنگ کے 10 دن بعد پولیس نے مقتول پر ہی ڈکیتی کا مقدمہ درج کر دیا۔ جب کہ ہجومی تشدد کی کوئی جانچ نہیں کی گئی اور ملزمین آزاد گھوم پھر رہے ہیں۔
اے پی سی آر رپورٹ میں کولکاتا میں لنچنگ کے دو الگ الگ واقعات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے، جس میں ارشاد عالم نام کے ایک شخص کو باندھ کر مارا پیٹا گیا۔ اسی بیچ اکثریتی برادری کے ایک شخص پراسین منڈل کو بھی سالٹ لیک کے علاقے میں ہجوم نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔
- فرقہ وارانہ تصادم
اے پی سی آر کی رپورٹ میں ملک بھر میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے فرقہ وارانہ تصادم کے متعدد واقعات کا ذکر بھی کیا گیا ہے، خاص طور پر 17 جون کو عید الاضحی کے موقعے پر ہوئے واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق تلنگانہ کے میدک میں 15 جون کو ایک مدرسے پر ہوئے ہجومی حملے میں کئی لوگ زخمی ہو گئے۔ منہاج العلوم مدرسہ کی انتظامیہ نے عید الاضحی پر قربانی کے لیے مویشی خریدے تھے۔ قربانی کے جانور لائے جانے کے بعد انتہا پسند تنظیموں کے مقامی ارکان نے مدرسہ کے قریب ہنگامہ کھڑا کر دیا۔
اس کے علاوہ اڑیشہ کے بالاسور اور کھوردھا میں ریاستی انتظامیہ نے فرقہ وارانہ جھگڑوں کے بعد ایک ہفتے سے زیادہ کے لیے کرفیو نافذ کر دیا، جب کہ ایک انتہا پسند ہجوم اس علاقے میں جانوروں کی قربانی کی مخالفت کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آیا، ان لوگوں نے مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی۔
وہیں ہماچل پردیش کے ناہن میں 19 جون کو ایک مسلمان شخص نے اپنے واٹس ایپ اسٹیٹس پر قربانی کے جانوروں کی تصویر شیئر کی، جس کو لے کر ایک انتہا پسند گروپ نے اس شخص کی ٹیکسٹائل دکان میں توڑ پھوڑ کی اور دکان لوٹ لی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل ہوئے ویڈیو میں پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں انتہا پسندوں کو دکان کھولتے ہوئے دیکھا گیا۔ وہ لوگ ہنستے ہوئے دکان سے کپڑے باہر پھینک رہے تھے۔