نئی دہلی: مرکزی حکومت نے ایک غیر معمولی فیصلے کے تحت جماعت اسلامی جموں و کشمیر پر پابندی کو برقرار رکھنے سے متعلق ایک ٹربیونل قائم کیا ہے جس میں دہلی ہائی کورٹ کے ایک جج کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ ٹربیونل طے کرے گا کہ آیا جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرنے کے اقدام کے پیچھے مکمل جواز ہے یا نہیں۔ ٹربیونل کے قیام کا حکمنامہ بدھوار کو جاری کیا گیا جو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ایکٹ کے پس منظر میں ہے۔
جموں و کشمیر میں الیکشن منعقد کرنے سے قبل مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ کافی معنی خیز ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ نے تین ہفتے قبل 27 فروری کو ایک اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں جماعت اسلامی پر عائد پابندی کو مزید پانچ سال تک بڑھایا گیا تھا۔ جماعت پر پابندی 28 فروری 2019 کو عائد کی گئی تھی جس کے فوراً بعد اس پارٹی کے سبھی اعلیٰ قائدین کو حراست میں لیا گیا اور سابق ریاست میں اس تنظیم کے اثاثوں کو منسلک کر دیا گیا۔ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے گزشتہ چھ برسوں کے دوران جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکنوں کے گھروں اور دفاتر میں چھاپے ڈالے ہیں اور انکے اثاثے یا تو ضبط کئے یا انہیں منسلک کر دیا گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی ایک نظریاتی علیحدگی پسند جماعت ہے جس نے عسکریت پسندی کی پشت پناہی کی ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ 27 فروری کو جو نوٹیفکیشن، گیزٹ آف انڈیا میں پابندی کے تعلق سے شائع کیا گیا تھا، اس کی ایک ذیلی دفعہ کے تحت حاصل شدہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ایکٹ مجریہ 1967 کی دفعہ چار کی ذیلی دفعہ ایک اور دفعہ پانچ کی شق ایک کے تحت مرکزی حکومت نے اس ٹربیونل کو تشکیل دینے کا حکم دیا ہے جس میں دلی ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس نوین چاولہ شامل ہوں گے۔ یہ ٹربیونل یہ فیصلہ کرے گا کہ آیا مرکزی وزارت داخلہ کے پاس جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرنے اور اسکو برقرار رکھنے کیلئے کافی وجوہات ہیں یا نہیں۔
ذرائع سے ای ٹی وی بھارت کو معلوم ہوا ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت اور مرکزی وزارت داخلہ کے درمیان پابندی کے حوالے سے گزشتہ کافی وقت سے مذاکرات چل رہے ہیں لیکن اس میں فریقین کی طرف سے عائد کردہ سخت شرائط کی وجہ سے کوئی اتفاق رائے نہیں ہو رہا ہے۔ جماعت اسلامی کا یہ موقف ہے کہ وہ ایک سیاسی اور سماجی تنظیم ہے جس نے ماضی میں جموں و کشمیر کے اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات میں حصہ بھی لیا ہے اور اسکے اراکین ایوان اسمبلی میں بھی اس جماعت کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ حکومت ہند کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے آئین کے مطابق وہ کشمیر کو ایک تصفیہ طلب مسئلہ مانتی ہے، جو ناقابل قبول ہے اور ماضی میں جماعت اسلامی کے کارکن عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ منسلک رہے ہیں۔ حکومت ہند کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی ٹیرر فنڈنگ اور ملک دشمنی کے متعدد معاملات میں ملوث ہے۔