کولکاتا میں لڑکیوں کے لیے قائم کردہ واحد تعلیمی ادارہ جس کی بنیاد مسلم لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم سے تشنگی کوبجھانے کے مقصد سے پڑی تھی۔
لیکن کالج کا مستقبل سیاست کی نذر ہوگئی آج کالج کی حالت یہ ہے کہ صرف دو ہی سرکاری طور پر ٹیچر ہیں اور 2017 میں داخلہ ہی نہیں ہوا تھا۔
2018 میں محض 30 طالبات نے ہی داخلہ لیا کالج میں طلباء آتے ہیں اور کلاس ہونے کا انتظار کر کے چلے جاتے ہیں دو عارضی اساتذہ ہیں جبکہ ٹیچر انچارج بیساکھی بنرجی اور پروین کور دو مستقل ٹیچر ہیں۔
اس سلسلے میں جب ای ٹی وی بھارت نے کالج کی ٹیچر انچارج بیساکھی بنرجی سے ملنا چاہا تو انہوں نے ملنے سے انکار کردیا اور پھر فون پر رابطہ کیا تو وہ بات کرنے کے لیے تیار ہو گئی ۔
انہوں نے کہاکہ اب تک 150 طالبات نے داخلہ فارم جمع کیا ہے اوت داخلہ لینے کی آجری تاریخ 22 جولائی ہے اس کے بعد ہی داخلہ لینے والے طالبات کی تعداد واضھ ہو پائے گی۔
دوسری جانب ملی الامین کالج بچاؤ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری محمد حسین رضوی نے ای ٹی بھارت کو بتایا کہ ذرائع کے مطابق اب تک صرف 45 طالبات نے ہی داخلہ لیا ہے جو کہ دوسرے کالجوں کے بنسبت بہت کم ہے۔
انہوں نے کہاکہ شہر کے دوسرے گرلس کالجوں جہاں تین ہزار سے چار ہزار طالبات نے داخلہ فارم داخل کیا ہے ۔ وہاں 150 فارم کی کیا حیثیت ہے جبکہ داخلہ کے معیاد میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کالج کے موجودہ حالات سے والدین اچھی طرح واقف ہیں اور کوئی بھی والدین اپنے بچوں کے مستقبل کو خطرے میں کیوں ڈالیں گے۔
جنرل سکریٹری کے مطابق کالج میں نہ ٹیچر ہیں نہ کلا سیس ہوتے طلباء اساتذہ کا انتظار کرکے چلے جاتے ہیں اور پھر کالج آنے کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے۔ پھر کالج کی طرف سے ان کو حاضری کا عزر بتا کر انکو امتحان میں بیٹھنے سے روک دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب کالج کی بانی کمیٹی کو ریاستی حکومت نے ایک خط کے ذریعہ 18 دسمبر 2018 کو مطلع کیا تھا کہ کالج کو اقلیتی درجہ حاصل نہیں ہے۔
لہذا کالج میں کوئی کارروائی یا فیصلہ کالج کے اقلیتی کردار کے حیثیت سے کرتی ہے تو ریاستی حکومت کی محکمہ اعلیٰ تعلیم کی طرف سے کارروائی کی جا سکتی ہے کالج کا تعلیمی نظام بری طرح سے متاثر ہے اور طلباء کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔