ETV Bharat / state

برطانوی دور حکومت میں بنایا گیا پاور پلانٹ اب بھی جاری

جدیدیت کے اس دور میں گاندھی جی کے خیالات بدلے اور نہ ہی انکا چرخہ۔ حالانکہ اس دوران ترقی کے طول و عرض میں ضرور تبدیلی واقع ہوئی ہے۔

ملک کا سب سے پرانا پاور پروجیکٹ
ملک کا سب سے پرانا پاور پروجیکٹ
author img

By

Published : Nov 9, 2020, 6:43 PM IST

ریاست اتراکھنڈ میں ایسے بہت سے ترقیاتی ستون ہیں جو برطانوی حکومت نے قائم کئے تھے جو آج بھی ماضی کی داستان بیان کررہے ہیں۔

ملک کا سب سے پرانا پاور پروجیکٹ

برطانوی دور حکومت میں جب کئی شہر بجلی کے نظام سے ناواقف تھے تب دہرادون اور مسوری کو روشن کرنے کے لیے 'گلوگی پروجیکٹ' شروع کیا گیا تھا۔

یہ ملک کا سب سے پرانا پاور پروجیکٹ ہے جو اب بھی دہرادون اور مسوری کو روشن کررہا ہے۔

اس منصوبے کا کام مسوری میں سنہ 1890 میں شروع ہوا تھا۔ انگریزوں نے بجلی کی پیداوار کے لیے بھارت میں سب سے پہلے مسوری کا انتخاب کیا تھا جس کی تاریخ آج بھی 'گلوگی پاور ہاؤس' بیان کر رہا ہے۔

ملک کی آزادی کو 72 سال ہوچکے ہیں لیکن جدید بھارت میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں آج بھی بجلی نہیں ہے۔ وہیں مسوری میں واقع گلوگی پاور ہاؤس نے اُس وقت اِس خطے کی ترقی کو ہوا دی جب ملک غلام تھا۔

برطانوی دور میں انگریزوں نے دہرادون اور مسوری کو بجلی سے روشن کرنے کے لیے اس پاور ہاؤس کا تصور کیا تھا۔

حقائق کے مطابق اس آبی بجلی پروجیکٹ پر تقریباً 7 لاکھ 50 ہزارروپے خرچ ہوئے تھے۔

پہلے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ بڑے جنریٹرز اور پودوں کو بیل گاڑی کے ذریعہ وادئ دون کے گڑھی ڈاکرا علاقے سے گلوگی لے جائیں گے لیکن تفصیلی سروے کے بعد اس میں زیادہ رقم اور وقت کی بربادی کو دیکھتے ہوئے اسے دہرادون۔مسوری موٹر مارگ (جو اس وقت بیل گاڑی مارگ تھا) کے ذریعے مشینیں یہاں پہنچائی گئیں۔

سنہ 1900 میں پہلی بار دہرادون پہنچی ٹرین نے اس منصوبے کی رفتار بڑھانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا، جس کے بعد انگلینڈ سے آبی جہازوں کے ذریعہ ممبئی پہنچنے والی بھاری مشینیں اور ٹربائینس کو دہرادون پہنچایا گیا، پھر بیل گاڑیوں اور کارکنان کے کاندھوں پر ان مشینوں کو 'گلوگی ہائیڈرو الیکٹرک پاور ہاؤس' کے سینکڑوں فٹ نیچے پہاڑی میں پلاننگ سائٹ تک پہنچایا گیا۔

آخر کار سنہ 1907 میں کیارکولی اور بھٹہ کے چھوٹے تالابوں سے 16 انچ پائپ لائنوں سے پہنچی پانی کی چادروں نے ولایتی ٹربائن مشینوں کو چلانا شروع کیا کیا اور مسوری۔دہرادون کے لوگوں کے گھروں میں پہلی بار بجلی کے بلب جل اٹھے۔

حالانکہ آبی بجلی نے گزشتہ 35 برسوں سے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ پچھلی دہائیوں میں پرانے ٹیکنیشن وقفہ وقفہ سے ریٹائر ہوگئے جو انگلینڈ میں بنی ٹربائنس اور مشینوں کو چلانے کے لیے ایک صدی قدیم 'گلوگی پاور ہاؤس' کا علم رکھتے تھے۔

دراصل پاور ہاؤس میں نصب غیر ملکی مشینوں کے پرزے پرانی ٹکنالوجی کی ہیں اور اب ان کا بننا بند ہوگیا ہے۔

ریاست اترکھنڈ کی تشکیل کے بعد اس کا کنٹرول 'اتراکھنڈ جل ودیوت نگم' کو دیا گیا ہے۔ وہیں اس تاریخی ورثہ کو سنوارنے اور اسے نئی نسل کو بتانے کی بھی ضرورت ہے۔

گلوگی پاور ہاؤس کو تکنیکی تاریخ کا ایک شاندار ورثہ مان کر اور اس کی اہمیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس وقت تزئین و جدید کاری اور اپ گریڈیشن کا کام جاری ہے۔ یہ 113 سالہ قدیم گلوگی پاور ہاؤس بھارتی برقی توانائی کی تاریخ اور اس ریاست کا شاندار ورثہ ہے۔

ریاست اتراکھنڈ میں ایسے بہت سے ترقیاتی ستون ہیں جو برطانوی حکومت نے قائم کئے تھے جو آج بھی ماضی کی داستان بیان کررہے ہیں۔

ملک کا سب سے پرانا پاور پروجیکٹ

برطانوی دور حکومت میں جب کئی شہر بجلی کے نظام سے ناواقف تھے تب دہرادون اور مسوری کو روشن کرنے کے لیے 'گلوگی پروجیکٹ' شروع کیا گیا تھا۔

یہ ملک کا سب سے پرانا پاور پروجیکٹ ہے جو اب بھی دہرادون اور مسوری کو روشن کررہا ہے۔

اس منصوبے کا کام مسوری میں سنہ 1890 میں شروع ہوا تھا۔ انگریزوں نے بجلی کی پیداوار کے لیے بھارت میں سب سے پہلے مسوری کا انتخاب کیا تھا جس کی تاریخ آج بھی 'گلوگی پاور ہاؤس' بیان کر رہا ہے۔

ملک کی آزادی کو 72 سال ہوچکے ہیں لیکن جدید بھارت میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں آج بھی بجلی نہیں ہے۔ وہیں مسوری میں واقع گلوگی پاور ہاؤس نے اُس وقت اِس خطے کی ترقی کو ہوا دی جب ملک غلام تھا۔

برطانوی دور میں انگریزوں نے دہرادون اور مسوری کو بجلی سے روشن کرنے کے لیے اس پاور ہاؤس کا تصور کیا تھا۔

حقائق کے مطابق اس آبی بجلی پروجیکٹ پر تقریباً 7 لاکھ 50 ہزارروپے خرچ ہوئے تھے۔

پہلے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ بڑے جنریٹرز اور پودوں کو بیل گاڑی کے ذریعہ وادئ دون کے گڑھی ڈاکرا علاقے سے گلوگی لے جائیں گے لیکن تفصیلی سروے کے بعد اس میں زیادہ رقم اور وقت کی بربادی کو دیکھتے ہوئے اسے دہرادون۔مسوری موٹر مارگ (جو اس وقت بیل گاڑی مارگ تھا) کے ذریعے مشینیں یہاں پہنچائی گئیں۔

سنہ 1900 میں پہلی بار دہرادون پہنچی ٹرین نے اس منصوبے کی رفتار بڑھانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا، جس کے بعد انگلینڈ سے آبی جہازوں کے ذریعہ ممبئی پہنچنے والی بھاری مشینیں اور ٹربائینس کو دہرادون پہنچایا گیا، پھر بیل گاڑیوں اور کارکنان کے کاندھوں پر ان مشینوں کو 'گلوگی ہائیڈرو الیکٹرک پاور ہاؤس' کے سینکڑوں فٹ نیچے پہاڑی میں پلاننگ سائٹ تک پہنچایا گیا۔

آخر کار سنہ 1907 میں کیارکولی اور بھٹہ کے چھوٹے تالابوں سے 16 انچ پائپ لائنوں سے پہنچی پانی کی چادروں نے ولایتی ٹربائن مشینوں کو چلانا شروع کیا کیا اور مسوری۔دہرادون کے لوگوں کے گھروں میں پہلی بار بجلی کے بلب جل اٹھے۔

حالانکہ آبی بجلی نے گزشتہ 35 برسوں سے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ پچھلی دہائیوں میں پرانے ٹیکنیشن وقفہ وقفہ سے ریٹائر ہوگئے جو انگلینڈ میں بنی ٹربائنس اور مشینوں کو چلانے کے لیے ایک صدی قدیم 'گلوگی پاور ہاؤس' کا علم رکھتے تھے۔

دراصل پاور ہاؤس میں نصب غیر ملکی مشینوں کے پرزے پرانی ٹکنالوجی کی ہیں اور اب ان کا بننا بند ہوگیا ہے۔

ریاست اترکھنڈ کی تشکیل کے بعد اس کا کنٹرول 'اتراکھنڈ جل ودیوت نگم' کو دیا گیا ہے۔ وہیں اس تاریخی ورثہ کو سنوارنے اور اسے نئی نسل کو بتانے کی بھی ضرورت ہے۔

گلوگی پاور ہاؤس کو تکنیکی تاریخ کا ایک شاندار ورثہ مان کر اور اس کی اہمیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس وقت تزئین و جدید کاری اور اپ گریڈیشن کا کام جاری ہے۔ یہ 113 سالہ قدیم گلوگی پاور ہاؤس بھارتی برقی توانائی کی تاریخ اور اس ریاست کا شاندار ورثہ ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.