ETV Bharat / state

نذیر بنارسی کے یوم پیدائش پر خصوصی رپورٹ

ظہیر بتاتے ہیں کہ اردو داں طبقہ نذیر بنارسی کو یہ سمجھ کر فراموش کر رہا ہے کہ وہ زیادہ تر ہندی الفاظ استعمال کرتے تھے جبکہ ہندی داں طبقہ ان کو اردو شاعر مانتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی خدمات منظر عام پر نہیں پہونچ رہی ہیں۔

Special report on the birthday of renowned Urdu poet Nazeer Banarasi
نذیر بنارسی کے یوم پیدائش پر خصوصی رپورٹ
author img

By

Published : Nov 25, 2020, 11:13 PM IST

اردو زبان کے معروف شاعر نذیر بنارسی کا آج یوم پیدائش ہے جس کی مناسبت سے ای ٹی وی بھارت نے ان کے بڑے صاحبزادے سے خاص بات چیت کی۔ جبکہ تینوں صاحب زادوں نے ان کی شاعری اپنے انداز میں بیان کی۔

نذیر بنارسی کے یوم پیدائش پر خصوصی رپورٹ

نذیر بنارسی کا شمار نظم اور غزل کے معروف ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔ وہ 25 نومبر 1909 کو بنارس میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد بنارس کے مشہور طبیب تھے۔ن ذیر بنارسی کی وفات 23 مارچ 1996 کو ہوئی۔

نذیر بنارسی اپنے آبائی پیشہ حکیمی سے وابستہ تھے۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد شعر و شاعری کے شوق نے ممتاز شاعر بنا دیا جس کے بعد انہیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔

شاعری میں نذیر کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی نظموں کے موضوعات اپنے آس پاس بکھری ہوئی زندگی کے حقیقی رنگوں سے چنے۔ انہوں نے اپنے وقت کی اہم سیاسی، سماجی، علمی اور ادبی شخصیات پر طویل طویل نظمیں بھی لکھیں۔

ان کے حلقہ احباب میں قد آور شخصیات شامل تھیں۔ جیسے مجروح سلطان پوری، جگر مرادابادی، کیفی اعظمی وغیرہ۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے ان کے بیٹے محمد ظہیر نے کہا کہ ایک بار جگر مرادآبادی نے ایک خط بھیجا جس میں لکھا تھا کہ آپ مجھ سے ناراض ہیں میرے خاندان سے نہیں، لہذا گونڈہ میں ایک مشاعرہ ہے اس میں آپ کی شرکت ضروری ہے اور جو آپ کو ناپسند ہے وہ مشاعرے میں نہیں ہوگا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بڑے شعراء کی نظر میں نذیر بنارسی کی اہمیت تھی۔

نذیر بنارسی نے شاعری کی مخلتف صنف پر طبع آزمائی کی ہے لیکن غزلیہ شاعری میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ نذیر کے شعری مجموعے 'گنگ و جمن'، 'راشٹر کی امانت راشٹر کے حوالے'، 'جواہر سے لال تک'، 'غلامی سے آزادی تک' اور 'کتاب غزل' کے نام سے شائع ہوئے۔ نذیر کی شاعری ایک طور سے ان کے عہد کی سیاسی، سماجی اور تہذیبی اتھل پتھل کا تخلیقی دستاویز ہے۔ ان کے چند شعری مجموعوں کی اشاعت نہیں ہوئی ہے۔

ظہیر بنارسی نے بتایا کہ ان کی حیات و خدمات پر اب تک کسی نے ریسرچ مقالہ نہیں لکھا ہے وہ ہندی اردو کے لیے یکساں شناخت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری عام فہم ہندوستانی زبان میں ہے۔ وہ گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار تھے جس کی جھلک ان کی شاعری میں نمایاں ہے۔

Special report on the birthday of renowned Urdu poet Nazeer Banarasi
نذیر بنارسی کے تینوں صاحبزادے (دائیں سے) محمد ظہیر، محمد صغیر، محمد ریاض

ظہیر بتاتے ہیں کہ اردو داں طبقہ نذیر بنارسی کو یہ سمجھ کر فراموش کر رہا ہے کہ وہ زیادہ تر ہندی الفاظ استعمال کرتے تھے جبکہ ہندی داں طبقہ ان کو اردو شاعر مانتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی خدمات منظر عام پر نہیں پہونچ رہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ نذیر بنارسی مجاہد آزادی بھی تھے انگریزوں کی کھل کر مخالفت کرتے تھے اور وطن کی محبت میں شاعری لکھتے تھے۔

ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

اندھیرا مانگنے آیا تھا روشنی کی بھیک

ہم اپنا گھر نہ جلاتے تو اور کیا کرتے

۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کریں اور وہ کریں ایسا کریں ویسا کریں

زندگی دو دن کی ہے دو دن میں ہم کیا کیا کریں

۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ عنایتیں غضب کی یہ بلا کی مہربانی

مری خیریت بھی پوچھی کسی اور کی زبانی

۔۔۔۔۔۔۔

دوسروں سے کب تلک ہم پیاس کا شکوہ کریں

لاؤ تیشہ ایک دریا دوسرا پیدا کریں

اردو زبان کے معروف شاعر نذیر بنارسی کا آج یوم پیدائش ہے جس کی مناسبت سے ای ٹی وی بھارت نے ان کے بڑے صاحبزادے سے خاص بات چیت کی۔ جبکہ تینوں صاحب زادوں نے ان کی شاعری اپنے انداز میں بیان کی۔

نذیر بنارسی کے یوم پیدائش پر خصوصی رپورٹ

نذیر بنارسی کا شمار نظم اور غزل کے معروف ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔ وہ 25 نومبر 1909 کو بنارس میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد بنارس کے مشہور طبیب تھے۔ن ذیر بنارسی کی وفات 23 مارچ 1996 کو ہوئی۔

نذیر بنارسی اپنے آبائی پیشہ حکیمی سے وابستہ تھے۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد شعر و شاعری کے شوق نے ممتاز شاعر بنا دیا جس کے بعد انہیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔

شاعری میں نذیر کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی نظموں کے موضوعات اپنے آس پاس بکھری ہوئی زندگی کے حقیقی رنگوں سے چنے۔ انہوں نے اپنے وقت کی اہم سیاسی، سماجی، علمی اور ادبی شخصیات پر طویل طویل نظمیں بھی لکھیں۔

ان کے حلقہ احباب میں قد آور شخصیات شامل تھیں۔ جیسے مجروح سلطان پوری، جگر مرادابادی، کیفی اعظمی وغیرہ۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے ان کے بیٹے محمد ظہیر نے کہا کہ ایک بار جگر مرادآبادی نے ایک خط بھیجا جس میں لکھا تھا کہ آپ مجھ سے ناراض ہیں میرے خاندان سے نہیں، لہذا گونڈہ میں ایک مشاعرہ ہے اس میں آپ کی شرکت ضروری ہے اور جو آپ کو ناپسند ہے وہ مشاعرے میں نہیں ہوگا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بڑے شعراء کی نظر میں نذیر بنارسی کی اہمیت تھی۔

نذیر بنارسی نے شاعری کی مخلتف صنف پر طبع آزمائی کی ہے لیکن غزلیہ شاعری میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ نذیر کے شعری مجموعے 'گنگ و جمن'، 'راشٹر کی امانت راشٹر کے حوالے'، 'جواہر سے لال تک'، 'غلامی سے آزادی تک' اور 'کتاب غزل' کے نام سے شائع ہوئے۔ نذیر کی شاعری ایک طور سے ان کے عہد کی سیاسی، سماجی اور تہذیبی اتھل پتھل کا تخلیقی دستاویز ہے۔ ان کے چند شعری مجموعوں کی اشاعت نہیں ہوئی ہے۔

ظہیر بنارسی نے بتایا کہ ان کی حیات و خدمات پر اب تک کسی نے ریسرچ مقالہ نہیں لکھا ہے وہ ہندی اردو کے لیے یکساں شناخت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری عام فہم ہندوستانی زبان میں ہے۔ وہ گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار تھے جس کی جھلک ان کی شاعری میں نمایاں ہے۔

Special report on the birthday of renowned Urdu poet Nazeer Banarasi
نذیر بنارسی کے تینوں صاحبزادے (دائیں سے) محمد ظہیر، محمد صغیر، محمد ریاض

ظہیر بتاتے ہیں کہ اردو داں طبقہ نذیر بنارسی کو یہ سمجھ کر فراموش کر رہا ہے کہ وہ زیادہ تر ہندی الفاظ استعمال کرتے تھے جبکہ ہندی داں طبقہ ان کو اردو شاعر مانتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی خدمات منظر عام پر نہیں پہونچ رہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ نذیر بنارسی مجاہد آزادی بھی تھے انگریزوں کی کھل کر مخالفت کرتے تھے اور وطن کی محبت میں شاعری لکھتے تھے۔

ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

اندھیرا مانگنے آیا تھا روشنی کی بھیک

ہم اپنا گھر نہ جلاتے تو اور کیا کرتے

۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کریں اور وہ کریں ایسا کریں ویسا کریں

زندگی دو دن کی ہے دو دن میں ہم کیا کیا کریں

۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ عنایتیں غضب کی یہ بلا کی مہربانی

مری خیریت بھی پوچھی کسی اور کی زبانی

۔۔۔۔۔۔۔

دوسروں سے کب تلک ہم پیاس کا شکوہ کریں

لاؤ تیشہ ایک دریا دوسرا پیدا کریں

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.