جو میسج وائرل ہو رہا ہے اس میں متعدد تنظیموں کا کہنا ہے کہ چونکہ عیدالاضحیٰ کے ماہ میں لاکھوں کی تعداد میں چھوٹے بڑے جانوروں کی قربانی ہوتی ہے۔
لہذا بڑے کاروباری جو اس کے خریدوفروخت میں لگے ہوتے ہیں، کافی کم قیمت میں چمڑے خریدنے کا کام کرتے ہیں۔ جس سے مدارس انتظامیہ کو کافی نقصان ہوتا ہے۔
اس لیے کم قیمت میں چمڑا فروخت کرنے سے بہتر یہ ہے کہ اسے زمین میں دفنا دیا جائے اور اس کے بدلے دو یا تین سو روپے مدارس کو دے دیا جائے۔
اور اسی میسج کی بنیاد پر گزشتہ برس بہت لوگوں نے ایسا ہی کیا تھا۔
لکھنؤ شہر قاضی مفتی ابوالعرفان نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے مسلمانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے میسجز بالکل بے بنیاد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اللہ نے دنیا میں کسی بھی چیز کو ناحق پیدا نہیں کیا۔ لہذا قربانی کا گوشت ہو یا اسے چمڑا تقسیم کرنا چاہیے۔
جہاں تک چمڑے کی کم قیمت کا سوال ہے تو کم ہو یا زیادہ اسے راہ حق میں دینا ہی چاہیے۔ نہ کہ کم قیمت کے سبب اسے زمین میں دفن کر کے برباد کرنا۔ اسلام میں اس کی ممانعت ہے اور یہ شریعت کے خلاف ہے۔
مفتی ابوالعرفان نے مزید کہا کہ جو لوگ ایسا کر چکے ہیں، انہیں دوبارہ ایسی حرکت نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ شریعت کے خلاف ہے۔