بھارت میں کورونا وائرس کے بڑھتے قدم کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیاہے لیکن اس کا خاص فائدہ نظر نہیں آرہا ہے۔ ایسے حالات میں والدین کے سامنے اپنے بچوں کی پڑھائی لکھائی کے نقصان کا بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن وہ فکرمند ہیں کہ اگر اسکول بھیجتے ہیں تو وائرس کا خطرہ ہے اور گھر میں بچے پڑھیں گے تو پڑھائی کا نقصان ہوگا۔
ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران چھٹی درجہ کے طالب علم محمد اختر نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے بعد سے ہی اسکول نہیں گیا۔ گھر میں آن لائن کلاس کر رہے ہیں۔ لیکن اس طرح پڑھائی کرنا ہمارے لیے بہت مشکل ہو رہا ہے۔
محمد اختر نے بتایا کہ آن لائن کلاس کرنے میں میری آنکھوں میں جلن ہونے لگی ہے اور نیٹ ورک خراب ہونے کی وجہ سے آواز اور تصویر صاف نہیں آتی ہے۔ مجھے آن لائن سے بہتر خود سے پڑھنا اچھا لگتا ہے۔
درجہ چھ میں زیر تعلیم ایک چھوٹی بچی صائمہ نے بتایا کہ آن لائن کلاس کرنے میں بڑی دشواری ہوتی ہے۔ زیادہ تر سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا پڑھایا جا رہا ہے۔ نیٹ ورک خراب ہونے کی وجہ سے پڑھنے اور سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔
بات چیت کے دوران شہزاد اختر نے بتایا کہ آن لائن پڑھنے میں ہمارے بچوں کی آنکھوں میں جلن ہونے لگی ہے کیونکہ ایک-ایک گھنٹے کی کلاس ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے ابھی تک اپنے بچوں کی فیس جمع نہیں کی ہے۔ مسٹر اختر نے صاف طور پر کہا کہ 'اگر اسکول کھل بھی گئے تو میں کسی بھی قیمت پر بچوں کو اسکول نہیں بھیج سکتا کیونکہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ مزید بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ زندگی رہی تو پڑھائی بھی ہو جائے گی۔ لیکن ہم بچوں کے لیے خطرہ نہیں لے سکتے۔
قابل ذکر ہے کہ شہزاد اختر نے بتایا کہ میں اسکول گیا تھا اور وہاں کے اساتذہ سے بات چیت کے دوران کہا کہ آپ اس بات کی ذمہ داری لیں کہ ہمارے بچوں کو آن لائن پڑھنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس لیے 'ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس برس بچوں کو اسکول نہیں بھیجیں گے۔
اسکول انتظامیہ اس لیے آن لائن کلاس کروا رہے ہیں تاکہ وہ موٹی فیس لے سکیں۔ انہیں بچوں کی صحت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ درجہ اول کے بچے کس طرح سے آن لائن پڑھائی کر سکتے ہیں۔ کیا ان کی آنکھوں میں موبائل فون کا اثر نہیں پڑے گا۔ کیا اسکول انتظامیہ کے لیے صرف پیسہ کمانا ہی مقصد ہے۔ کیا والدین کے لیے بچوں کی تعلیم و تربیت ہی ضروری ہے زندگی نہیں؟