ETV Bharat / state

International conference at AMU دی ویسٹ لینڈ، یولیسس اور جیکبس روم کے سو سال کے عنوان پر بین الاقوامی کانفرنس - دی ویسٹ لینڈ یولیسس اور جیکبس روم کے سو سال

اے ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں اپنے صدارتی پیغام میں کہا ”ادب ایک سماجی عمل ہے جو تبدیلی کو آگے بڑھاتا ہے اور لوگوں کو قدم اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے-

بین الاقوامی کانفرنس
بین الاقوامی کانفرنس
author img

By

Published : Feb 25, 2023, 10:50 PM IST

جدیدیت کے عظیم سال (1922) کی صد سالہ تقریبات کے ایک حصہ کے طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ انگریزی کے زیر اہتمام ’دی ویسٹ لینڈ، یولیسس اور جیکبس روم کے سو سال‘ (100 Years of the Waste Land, Ulysseus and Jacob’s Room) عنوان سے دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا آغاز کیا گیا۔ دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں اے ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے اپنے صدارتی پیغام میں کہا ”ادب ایک سماجی عمل ہے جو تبدیلی کو آگے بڑھاتا ہے اور لوگوں کو قدم اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ، جیمز جوائس اور ورجینیا وولف (T. S. Eliot, James Joyce and Virginia Woolf)جیسے ادیبوں نے اپنے عہد کے سماجی، تاریخی اور ثقافتی مسائل و معاملات کو اپنے اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داریوں کے مرکز میں رکھا اور اسی لیے وہ آج بھی یاد کئے جارہے ہیں“۔ انہوں نے کانفرنس کی کامیابی کے لئے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

مہمان مقررین کا خیرمقدم کرتے ہوئے شعبہ انگریزی کے سربراہ پروفیسر عاصم صدیقی نے کہا کہ جیمز جوائس کی یولیسس، ٹی ایس ایلیٹ کی ویسٹ لینڈ، اور ورجینیا وولف کے جیکبس روم نے 1922 میں جدیدیت کی تحریک کو آگے بڑھایا، حالانکہ یہ اصطلاح بعد میں رائج ہوئی۔ پروفیسر صدیقی نے واضح کیا کہ کس طرح یولیسس، دی ویسٹ لینڈ اور جیکبس روم کی اشاعت کے 100 سال بعد بھی ان کے مرکزی موضوعات آج بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے جدیدیت کی مختلف اقسام کا ذکر کیا اور ہائی ماڈرنزم کے بارے میں بات کی جس کا تعلق یورپ سے ہے۔

انہوں نے اے ایم یو کے شعبہ انگریزی کی شاندار تاریخ پر بھی روشنی ڈالی جس کا قیام 1877 میں ہوا اور اس کے پہلے صدر شعبہ سر والٹر رالے تھے۔ انہوں نے پروفیسر نجمہ محمود کا خاص طور پر ذکر کیا جنہوں نے ورجینیا وولف پر ایک کتاب لکھی، جب کہ پروفیسر کے ایس مشرا نے ٹی ایس ایلیٹ کے ڈراموں کے بارے میں لکھا۔ اسی طرح پروفیسر زیڈ عثمانی نے یولیسس پر 32 صفحات پر مشتمل ایک طویل مضمون لکھا۔ انہوں نے پروفیسر اسلوب احمد انصاری اور پروفیسر مسعود الحسن کی خدمات پر بھی روشنی ڈالی۔
ایرک ہوبسبام کا حوالہ دیتے ہوئے مہمان خصوصی پروفیسر موتی لال رینا (پنجاب یونیورسٹی، چندی گڑھ) نے کہا کہ جدیدیت کا نقطہ آغاز 1848 اور 1849 سمجھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مذکورہ وقفہ کو سماجی و سیاسی تاریخ کا ایک عہد قرار دیا جب کمیونسٹ منشور شائع ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب عقلیت کا روشن خیال عہد مہذب یورپ میں وحشی اور قدیم کے خوف کے ساتھ موجود رہا۔ انہوں نے جدیدیت کے بارے میں گفتگو کی جو ایک ثقافت سے دوسری ثقافت اور ایک تہذیب سے دوسری تہذیب میں مختلف ہے۔ پروفیسر رینا نے روسی ادب، خاص طور پر معروف مصنف فیوڈور دوستووسکی کا حوالہ دیا۔ انہوں نے شعبہ کے سابق اساتذہ پروفیسر مسعود الحسن اور پروفیسر زاہدہ زیدی کو بھی یاد کیا اور اے ایم یو کیمپس سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ مہمان اعزازی پروفیسر امرجیت سنگھ نے اے ایم یو کے اپنے پہلے دورے کو یاد کیا اور دو روزہ بین الاقوامی سیمینار کے انعقاد کے لیے شعبہ انگریزی کو مبارکباد پیش کی۔

پروفیسر عارف نذیر، ڈین، فیکلٹی آف آرٹس نے اپنے خطاب میں سنسکرت کے ایک شلوک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ علم اور بادشاہی کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ بادشاہ کو اپنے ملک میں عزت دی جاتی ہے جبکہ دانشور کو ہر جگہ عزت دی جاتی ہے۔ انہوں نے عصری تناظر میں دی ویسٹ لینڈ، یولیسس اور جیکبس روم کی موزونیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ایس ایلیٹ کی دی ویسٹ لینڈ بیسویں صدی کی بہترین نظموں میں سے ایک ہے جو انسانی زندگی کی کیفیت کی عکاس ہے۔

جدیدیت کے عظیم سال (1922) کی صد سالہ تقریبات کے ایک حصہ کے طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ انگریزی کے زیر اہتمام ’دی ویسٹ لینڈ، یولیسس اور جیکبس روم کے سو سال‘ (100 Years of the Waste Land, Ulysseus and Jacob’s Room) عنوان سے دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا آغاز کیا گیا۔ دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں اے ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے اپنے صدارتی پیغام میں کہا ”ادب ایک سماجی عمل ہے جو تبدیلی کو آگے بڑھاتا ہے اور لوگوں کو قدم اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ، جیمز جوائس اور ورجینیا وولف (T. S. Eliot, James Joyce and Virginia Woolf)جیسے ادیبوں نے اپنے عہد کے سماجی، تاریخی اور ثقافتی مسائل و معاملات کو اپنے اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داریوں کے مرکز میں رکھا اور اسی لیے وہ آج بھی یاد کئے جارہے ہیں“۔ انہوں نے کانفرنس کی کامیابی کے لئے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

مہمان مقررین کا خیرمقدم کرتے ہوئے شعبہ انگریزی کے سربراہ پروفیسر عاصم صدیقی نے کہا کہ جیمز جوائس کی یولیسس، ٹی ایس ایلیٹ کی ویسٹ لینڈ، اور ورجینیا وولف کے جیکبس روم نے 1922 میں جدیدیت کی تحریک کو آگے بڑھایا، حالانکہ یہ اصطلاح بعد میں رائج ہوئی۔ پروفیسر صدیقی نے واضح کیا کہ کس طرح یولیسس، دی ویسٹ لینڈ اور جیکبس روم کی اشاعت کے 100 سال بعد بھی ان کے مرکزی موضوعات آج بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے جدیدیت کی مختلف اقسام کا ذکر کیا اور ہائی ماڈرنزم کے بارے میں بات کی جس کا تعلق یورپ سے ہے۔

انہوں نے اے ایم یو کے شعبہ انگریزی کی شاندار تاریخ پر بھی روشنی ڈالی جس کا قیام 1877 میں ہوا اور اس کے پہلے صدر شعبہ سر والٹر رالے تھے۔ انہوں نے پروفیسر نجمہ محمود کا خاص طور پر ذکر کیا جنہوں نے ورجینیا وولف پر ایک کتاب لکھی، جب کہ پروفیسر کے ایس مشرا نے ٹی ایس ایلیٹ کے ڈراموں کے بارے میں لکھا۔ اسی طرح پروفیسر زیڈ عثمانی نے یولیسس پر 32 صفحات پر مشتمل ایک طویل مضمون لکھا۔ انہوں نے پروفیسر اسلوب احمد انصاری اور پروفیسر مسعود الحسن کی خدمات پر بھی روشنی ڈالی۔
ایرک ہوبسبام کا حوالہ دیتے ہوئے مہمان خصوصی پروفیسر موتی لال رینا (پنجاب یونیورسٹی، چندی گڑھ) نے کہا کہ جدیدیت کا نقطہ آغاز 1848 اور 1849 سمجھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مذکورہ وقفہ کو سماجی و سیاسی تاریخ کا ایک عہد قرار دیا جب کمیونسٹ منشور شائع ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب عقلیت کا روشن خیال عہد مہذب یورپ میں وحشی اور قدیم کے خوف کے ساتھ موجود رہا۔ انہوں نے جدیدیت کے بارے میں گفتگو کی جو ایک ثقافت سے دوسری ثقافت اور ایک تہذیب سے دوسری تہذیب میں مختلف ہے۔ پروفیسر رینا نے روسی ادب، خاص طور پر معروف مصنف فیوڈور دوستووسکی کا حوالہ دیا۔ انہوں نے شعبہ کے سابق اساتذہ پروفیسر مسعود الحسن اور پروفیسر زاہدہ زیدی کو بھی یاد کیا اور اے ایم یو کیمپس سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ مہمان اعزازی پروفیسر امرجیت سنگھ نے اے ایم یو کے اپنے پہلے دورے کو یاد کیا اور دو روزہ بین الاقوامی سیمینار کے انعقاد کے لیے شعبہ انگریزی کو مبارکباد پیش کی۔

پروفیسر عارف نذیر، ڈین، فیکلٹی آف آرٹس نے اپنے خطاب میں سنسکرت کے ایک شلوک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ علم اور بادشاہی کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ بادشاہ کو اپنے ملک میں عزت دی جاتی ہے جبکہ دانشور کو ہر جگہ عزت دی جاتی ہے۔ انہوں نے عصری تناظر میں دی ویسٹ لینڈ، یولیسس اور جیکبس روم کی موزونیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ایس ایلیٹ کی دی ویسٹ لینڈ بیسویں صدی کی بہترین نظموں میں سے ایک ہے جو انسانی زندگی کی کیفیت کی عکاس ہے۔

مزید پڑھیں:Aligarh Muslim University اے ایم یو طالبہ کو حکومت کی جانب سے گرانٹ ملی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.