جموں و کشمیر کے سرینگر ہوائی اڈے سے شارجہ (متحدہ عرب امارات) کے لیے روانہ ہونے والی پروازوں کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے اب ان پروازوں کو متبادل اور لمبا راستہ اختیار کرنا پڑ سکتا ہے۔
جموں و کشمیر کے ایک سینئر سرکاری افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’گذشتہ روز پاکستانی حکومت نے اعتراض ظاہر کیا ہے۔ اس حوالے سے مرکزی وزارت خارجہ کو بھی اطلاع دی گئی ہے اور اس وقت متبادل منصوبہ زیر بحث ہے۔‘‘
واضح رہے کہ گذشتہ مہینے کی 24 تاریخ کو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اس پرواز کا افتتاح کرتے ہوئی دعویٰ کیا تھا کہ ’’سرینگر اور شارجہ کے درمیان ڈائریکٹ پرواز شروع ہونے سے کشمیر کی معیشت، سیاحت اور تجارت کو فروغ ملے گا۔‘‘
پاکستان کی جانب سے اعتراض ظاہر کرنے کے بعد بدھ کو جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے سماجی رابطہ گاہ پر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان نے 2009-2010 میں بھی سری نگر سے دبئی جانے والی ’ایئر انڈیا ایکسپریس‘ کی پرواز کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا تھا۔ مجھے امید تھی کہ ’گو فرسٹ‘ کو پاکستان فضائیہ سے پرواز کی اجازت دینا تعلقات میں بہتری کا اشارہ ہے، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں تھا۔‘‘
اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس حوالے سے ابھی تک کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم چند روز قبل پاکستانی میڈیا پر ایسی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ ’’فیصلہ لیتے وقت ملک کی وزارت خارجہ سے مشورہ نہیں لیا گیا تھا۔‘‘
مزید پڑھیں: اگر دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر کے حالات بہتر ہورہے تو ایک اور سیکورٹی ایجنسی کا قیام کیوں: گوہر گیلانی
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار عالم نے بیان جاری کرتے ہوئی کہا تھا کہ ’’ایک اہم پہلو یہ ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر کی صورتِحال سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے اور ’معمول، امن و انصاف اور ترقی‘ کے جعلی بیانیے کو پیش کرنے کے لیے متنوع اقدامات کو جاری رکھا جا رہا ہے۔‘‘