ETV Bharat / state

ایس ایس پی کے ٹویٹ پر پولیس سربراہ کو نوٹس

قومی انسانی حقوق کمیشن نے 21 اگست کو عسکریت پسندوں کے ساتھ تصادم کے واقعات کو ٹوئٹر پر کمشنر زون پولیس کی جانب سے دلکش انداز میں پیش کرنے پر جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کو ایک نوٹس جاری کیا ہے۔

ایس ایس پی کے ٹویٹ پر پولیس سربراہ کو نوٹس
ایس ایس پی کے ٹویٹ پر پولیس سربراہ کو نوٹس
author img

By

Published : Aug 28, 2020, 10:50 PM IST

حقوق انسانی کمیشن نے کہا کہ ’اگرچہ فورسز کو اپنے دفاع میں جواب دینے کا حق حاصل ہے لیکن اس سے قتل و غارت گری کے لیے ہرگز استعمال نہیں کیا جاسکتا‘‘۔

این ایچ آر سی نے 24 اگست کو ایس ایس پی امتیاز حسین کے ٹویٹ پر وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرتے ہوئے یکم اکتوبر تک رپورٹ جمع کرنے کو کہا ہے۔

بشکریہ ٹویٹر
بشکریہ ٹویٹر

کشمیر پولیس زون کی جانب سے کیے گئے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے ہوئے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (سیکیورٹی)، امتیاز حسین نے لکھا تھا: 'ہم قانون کے پیرامیٹرز کے تحت کام کرتے ہیں، جس میں انسانی جانوں کے لیے انتہائی پابندی اور سب سے زیادہ احترام ہے۔ آؤٹ لک صرف بزدل ہوسکتے ہیں۔ پورے گینگ کے خاتمے کے ساتھ ہمارے ذریعہ مناسب جواب۔ جئے ہند'۔

وہیں قومی انسانی حقوق کمیشن نے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ ٹویٹ مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کے ذریعہ کیے جانے والے پُرتشدد اقدام کے جواب میں ہے۔ افسر نے اس طرح سے پولیس کی طرف سے چار افراد کو ہلاک کرکے کی جانے والی کارروائی کی تعریف کرنے کی کوشش کی ہے۔

کشمیر کے موجودہ حالات اور پولیس محکمے پر عسکریت پسندانہ کاروائیوں سے پڑتے اثرات کو دھیان میں رکھتے ہوئے کمیشن کا کہنا تھا کہ 'فورسز اپنی قانونی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے اپنے دفاع کے حق میں جواب دینے کا حق رکھتی ہے جبکہ وہ حملہ آوروں یا حملہ آوروں کی طرح غیر معمولی صورتحال سے نمٹ رہے ہیں، لیکن اس سے پولیس کو کسی کی جان لینے کا حق نہیں ملتا ہے۔ سیکیورٹی فورسز ان کی مرضی سے کسی کو بھی مار ڈالیں اور پھر ہلاکت کو خوش آئند قرار دیں۔ یہ غیر اخلاقی ہے۔ کمیشن کو یہ دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی ہے کہ پولیس فورس کے ایک ممبر نے سوشل میڈیا پر اس طرح کی بے حرمتی اور غیر مصدقہ مواد پوسٹ کرکے سراسر لاپرواہی کا مظاہرہ کیا ہے "

کمیشن نے کہا کہ وردی والے افسران کو 'ایسے غافل انداز' میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے جو انسانی حقوق کی قابل گرفت خلاف ورزی پر ختم ہوسکتی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ کمیشن نے یہ بھی کہا کہ اس سال کے شروع میں جموں وکشمیر اور لداخ یو ٹی سے 24 گھنٹوں کے دوران ہونے والی زیر حراست اموات اور 48 گھنٹوں کے دوران ہونے والے تصادموں میں ہوئی اموات کے بارے میں آگاہ کریں-

یہ بھی پڑھیں: اہلخانہ نے لاپتہ نوجوان سے گھر واپس آنے کی التجا کی

کمیشن کا کہنا ہے کہ 'ہمارے پاس موجود دستاویز کے مطابق جموں و کشمیر انتظامیہ کے جانب سے ہمیں اس تصادم کے بارے میں کوئی اطلاح موصول نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے یہ کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی ہدایتوں کی خلاف وزری ہے - اس پر سنگین نوٹس لیتے ہوئے کمیشن جموں و کشمیر پولیس کے ڈی جی پی سے تفصیلاً رپورٹ طلب کرتا ہے'۔

حقوق انسانی کمیشن نے کہا کہ ’اگرچہ فورسز کو اپنے دفاع میں جواب دینے کا حق حاصل ہے لیکن اس سے قتل و غارت گری کے لیے ہرگز استعمال نہیں کیا جاسکتا‘‘۔

این ایچ آر سی نے 24 اگست کو ایس ایس پی امتیاز حسین کے ٹویٹ پر وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرتے ہوئے یکم اکتوبر تک رپورٹ جمع کرنے کو کہا ہے۔

بشکریہ ٹویٹر
بشکریہ ٹویٹر

کشمیر پولیس زون کی جانب سے کیے گئے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے ہوئے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (سیکیورٹی)، امتیاز حسین نے لکھا تھا: 'ہم قانون کے پیرامیٹرز کے تحت کام کرتے ہیں، جس میں انسانی جانوں کے لیے انتہائی پابندی اور سب سے زیادہ احترام ہے۔ آؤٹ لک صرف بزدل ہوسکتے ہیں۔ پورے گینگ کے خاتمے کے ساتھ ہمارے ذریعہ مناسب جواب۔ جئے ہند'۔

وہیں قومی انسانی حقوق کمیشن نے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ ٹویٹ مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کے ذریعہ کیے جانے والے پُرتشدد اقدام کے جواب میں ہے۔ افسر نے اس طرح سے پولیس کی طرف سے چار افراد کو ہلاک کرکے کی جانے والی کارروائی کی تعریف کرنے کی کوشش کی ہے۔

کشمیر کے موجودہ حالات اور پولیس محکمے پر عسکریت پسندانہ کاروائیوں سے پڑتے اثرات کو دھیان میں رکھتے ہوئے کمیشن کا کہنا تھا کہ 'فورسز اپنی قانونی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے اپنے دفاع کے حق میں جواب دینے کا حق رکھتی ہے جبکہ وہ حملہ آوروں یا حملہ آوروں کی طرح غیر معمولی صورتحال سے نمٹ رہے ہیں، لیکن اس سے پولیس کو کسی کی جان لینے کا حق نہیں ملتا ہے۔ سیکیورٹی فورسز ان کی مرضی سے کسی کو بھی مار ڈالیں اور پھر ہلاکت کو خوش آئند قرار دیں۔ یہ غیر اخلاقی ہے۔ کمیشن کو یہ دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی ہے کہ پولیس فورس کے ایک ممبر نے سوشل میڈیا پر اس طرح کی بے حرمتی اور غیر مصدقہ مواد پوسٹ کرکے سراسر لاپرواہی کا مظاہرہ کیا ہے "

کمیشن نے کہا کہ وردی والے افسران کو 'ایسے غافل انداز' میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے جو انسانی حقوق کی قابل گرفت خلاف ورزی پر ختم ہوسکتی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ کمیشن نے یہ بھی کہا کہ اس سال کے شروع میں جموں وکشمیر اور لداخ یو ٹی سے 24 گھنٹوں کے دوران ہونے والی زیر حراست اموات اور 48 گھنٹوں کے دوران ہونے والے تصادموں میں ہوئی اموات کے بارے میں آگاہ کریں-

یہ بھی پڑھیں: اہلخانہ نے لاپتہ نوجوان سے گھر واپس آنے کی التجا کی

کمیشن کا کہنا ہے کہ 'ہمارے پاس موجود دستاویز کے مطابق جموں و کشمیر انتظامیہ کے جانب سے ہمیں اس تصادم کے بارے میں کوئی اطلاح موصول نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے یہ کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی ہدایتوں کی خلاف وزری ہے - اس پر سنگین نوٹس لیتے ہوئے کمیشن جموں و کشمیر پولیس کے ڈی جی پی سے تفصیلاً رپورٹ طلب کرتا ہے'۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.