ہماچل پردیش میں زرعی سائنسدانوں نے آلو کی کاشت کی ایک نئی تکنیک ایجاد کر لی ہے۔ اب تک آپ نے آلو کو مٹی میں اگتے دیکھا ہوگا لیکن اب آلو مٹی کے باہر بھی اگیں گے۔ سائنسدانوں نے آلو کی دو قسموں کفری نیل کنٹھ اور کفری سنگم پر تحقیق کی۔ یہ تحقیق زرعی سائنس مرکز، ضلع سرمور میں ڈھولکوان میں کی گئی۔ یہ تحقیق کامیاب رہی اور اس تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے آدھے ہیکٹر زمین پر آلو تیار کیے گئے۔
آلو کی کاشت کے لیے پہلے کاشتکار کو کھیت جوتنا پڑتا ہے، پھر کھیت میں نالیاں بنانی پڑتی ہیں، اس کے بعد آلو کے بیج کو زمین میں دبایا جاتا ہے، لیکن اگر کاشتکار زرعی سائنسدانوں کی دریافت کردہ نئی تکنیک سے آلو کاشت کریں تو انہیں کھیت میں ہل چلانے اور اسے تیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس تکنیک میں آلو کے بیج نم مٹی کے اوپر رکھے جاتے ہیں، انہیں مٹی میں دبانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
مٹی کے باہر تیار آلو کی فصل
کرشی وگیان مرکز، دھولا کواں کے سائنسدانوں نے کھیت میں آلو کے بیج کو بغیر ہل چلائے زمین پر رکھا اور پھر ملچنگ تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اسے تین چوتھائی فٹ تک بھوسے سے ڈھانپ دیا۔ اس کے بعد خاص قسم کی دیسی کھاد (گھن جیو امرت) کا استعمال کیا گیا۔ ملچنگ کی وجہ سے کھر پتوار کا مسئلہ بھی ختم ہو گیا اور تین ماہ بعد آلو کی فصل مٹی کے بغیر مکمل طور پر تیار ہو گئی۔
![پرالی میں آلو اگانے کی تکنیک](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/09-02-2025/23505728_thumb.jpg)
ملچنگ کیا ہے؟
مٹی کو پرالی/پوال کے ذریعہ ڈھانپے کے عمل کو ملچنگ کہا جاتا ہے۔ ایسا کرنے سے مٹی کے اندر زیادہ دنوں تک نمی بنی رہتی ہے۔ اس سے مٹی کو غذائی اجزاء ملتے ہیں اور گھاس پھوس بھی نہیں اگتے۔ ملچنگ کے لیے خشک گھاس، پتے، بھوسا، پرالی اور گائے کے گوبر کو استعمال کیا جاتا ہے۔ بعد میں ملچنگ کے لیے استعمال کی گئی یہ چیزیں سڑ جاتی ہیں اور مٹی کی غذائیت کو بڑھاتی ہیں۔
زرعی تحقیقی مرکز اکروٹ اونا میں تعینات ایگرانومی ڈاکٹر سورو شرما نے کہا کہ 'اس ٹیکنالوجی سے آلو کی ہر قسم تیار کی جائے گی۔ اس میں کسانوں کو آلو کی پیداوار کے لیے کھیتوں میں نالے اور نالے بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مٹی آلو سے چپکی نہیں رہے گی۔ زیرو کھیتی ٹیکنالوجی کی خاصیت ہے۔ جڑی بوٹیوں کے کیمیکلز کو چھڑکنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ دھان کے بھوسے کے ساتھ ملچنگ کی وجہ سے جڑی بوٹیاں نہیں اگیں گی۔ اس ٹیکنالوجی میں مزدوری کی ضرورت کم ہوگی، کسی بڑی مشین یا ٹریکٹر کی ضرورت نہیں ہوگی۔ آلو نکالنے کے لیے کھیت کھودنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ نئی ٹیکنالوجی میں آلو کے زمین کے اندر رہ جانے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سنچائی کے لیے کم پانی استعمال
اس تکنیک میں تین بار ہلکی آبپاشی (سینچائی) کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس تکنیک سے پانی کا خرچ بھی بچ جاتا ہے۔ اگر درمیان میں بارش ہو جائے تو اس فصل کو تین بار بھی پانی دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ ملچنگ کی وجہ سے زمین کی نمی کافی دنوں تک برقرار رہتی ہے۔
![پرالی اور بھوسے میں اگائے گئے آلو](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/09-02-2025/23505728_thumbna.jpg)
سو فیصد پیداوار
روایتی طور پر آلو کی فصل تیار ہونے کے بعد اسے کھود کر نکال دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے کھدائی کے دوران کچھ آلو کٹ کر پھٹ جاتے ہیں اور کچھ آلو زمین کے اندر رہ جاتے ہیں جس سے کاشتکار پوری کا نقصان ہوتا ہے، لیکن اس تکنیک میں آلو زمین کے اوپر ہی رہے گا، لہٰذا جب فصل تیار ہو جائے گی تو کھدائی کی کوئی پریشانی نہیں ہوگی اور نہ ہی آلو کے کٹنے اور پھٹ جانے کی کوئی پریشانی ہوگی۔ اس کے علاوہ کسانوں کو 100% آلو ملے گا اور اس پر کوئی کیچڑ اور مٹی نہیں ہوگی یہ مکمل طور پر صاف ہوگا۔
نئی ٹیکنالوجی میں بھوسے/پرالی کا استعمال اہم
اس ٹیکنالوجی میں سائنسدانوں نے آلو کی پیداوار کے لیے بھوسے کا استعمال کیا۔ پرالی جلانے سے ماحول کو نقصان پہنچتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے بلکہ گرین ہاؤس گیسیز بھی خارج ہو رہی ہیں۔ اس وقت ماحولیات اور انسانی زندگی کے لیے پرالی ایک بڑا چیلنج ہے لیکن یہاں زرعی سائنسدانوں نے اسے آلو کی پیداوار میں استعمال کیا اور نتیجتاً کھیت میں ہی یہ پرالی/بھوسے گل سڑ جاتا ہے۔
لاگت میں کمی
بڑی بات یہ ہے کہ اسے مکمل طور پر قدرتی طور پر اگایا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے پیداوار میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اگر سائنسدانوں کی مانیں تو اس ٹیکنالوجی کو اپنانے سے نہ صرف لاگت میں کمی آئے گی بلکہ کسانوں کا وقت، مزدوروں کی اجرت اور مشینوں پر لگنے والا خرچ بھی بچ جائے گا۔
یہ آلو صحت کے لیے فائدہ مند
دوسری طرف، ڈاکٹر پنکج متل، پرنسپل سائنسدان اور کرشی وگیان کیندر دھولا کوان کے انچارج نے کہا کہ 'اس تکنیک سے اگائے گئے آلو کے یہ اقسام صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہیں۔ کفری نیلکنٹھ قسم کے آلو میں اینٹی آکسیڈنٹ اور کیروٹین اینتھوسیانن جیسے عناصر پائے جاتے ہیں۔ یہ عناصر صحت کے لیے فائدہ مند ہیں۔ اس آلو میں بیماریوں کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت بہت زیادہ ہے۔ یہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔