منصور حسین کو انتظامیہ نے منگل کو پی ایس اے کے تحت بند کیا ہے جبکہ وہ پانچ اگست سے سرینگر کے ایم ایل اے ہاسٹل میں زیر حراست ہیں۔
ان کے پبلک سیفٹی ایکٹ ڈوزیئر میں انتظامیہ نے الزام لگایا گیا ہے کہ بحیثیت انجینیئر، ان پر سنہ 1993 میں کرپشن کے الزام میں ویجیلنس آرگنائزیشن نے مقدمہ درج کیا تھا۔
ان پر مزید الزام عائد کرتے ہوئے انتظامیہ نے کہا ہے کہ سنہ 2014 کے اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران انہوں نے اشتعال انگیز تقریر کرتے ہوئے کہا تھا 'جموں و کشمیر مسلم اکثریتی ریاست ہے جہاں ہندو وزیر اعلیٰ نہیں ہو سکتا ہے۔'
انتظامیہ نے ان کے پی ایس اے ڈوزیئر میں مزید الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ بحیثیت چیئرمین، کھادی ولیج اینڈ انڈسڑیز بورڈ میں انہوں نے بدعنوانی کر کے کئی تقرریاں کی تھیں۔
واضح رہے کہ منصور حسین پی ڈی پی کے چوتھے اور کشمیر کے نویں سیاسی رہنما ہیں جن کو لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید کر دیا ہے۔
گزشتہ برس پانچ اگست کو بی جے پی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں منقسم کر کے درجنوں سرکردہ سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لیا تھا۔
تاہم درجنوں رہنماؤں کو بعد میں رہا کیا تھا لیکن نو سیاسی رہنما بشمول نیشنل کانفرنس کے صدر اور موجودہ رکن پارلیمان فاروق عبداللہ، سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی، نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر، ہلال لون اور پی ڈی پی کے نعیم اختر، سرتاج مدنی، سابق بیوروکریٹ اور جموں و کشمیر پیپلز مومنٹ کے صدر شاہ فیصل پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کر کے انہیں نظر بند کیا گیا ہے۔