جموں وکشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کشمیر نیوز سروس کے ایک ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا 'کے این ایس کشمیر جیسے مقامی خبر رساں اداروں کو سچ بولنے کے پاداش میں ہراساں کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر حکومت کی کشمیر میں آزاد پریس کو دبانے کی ایک کوشش ہےجو قابل مذمت ہے'۔
کے این ایس نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا: 'حکام نے مگرمل باغ سرینگر میں واقع کے این ایس کے دفتر کو مقفل کر دیا ہے'۔
واضح رہے کہ محکمہ اسٹیٹ نے مگرمل باغ سرینگر میں واقع سرکاری کوارٹروں میں مقامی خبر رساں ادارے 'کشمیر نیوز سروس' کے دفتر کو 15 اکتوبر کو سیل کردیا۔ ادارے کے ایک ملازم نے کہا کہ 'متعلقہ محکمہ کے عہدیدار دفتر میں داخل ہوئے اور عملے کو بسترہ گول کر کے فوری طور دفتر خالی کرنے کی ہدایات دیں۔'
یہ بھی پڑھیں: اننت ناگ: سکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں ایک عسکریت پسند ہلاک
جموں و کشمیر کی تقریباً تمام علاقائی سیاسی جماعتوں نے محکمہ اسٹیٹ کی اس کارروائی کی مذمت کی ہے۔
نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی ڈار نے اپنے ایک بیان کہا کہ پہلے روزنامہ کشمیر ٹائمز کی مدیر اعلیٰ انوراھا بسین اور اب خبر رساں ایجنسی کے این ایس کو الاٹ سرکاری کوارٹروں سے جبری طور نکالنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکمران کشمیر میں ایک منظم طریقہ کار کے ذریعے آزاد صحافت کا گھلا گھونٹ رہی ہے۔'
این سی ترجمان نے کہا کہ 'ایسے اقدامات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں نے پہلے ہی یہاں کے صحافیوں کا قافیہ حیات تنگ کر رکھا تھا اور اس کے بعد میڈیا کو مکمل طور پر کنٹرول کرنے کے لئے نئی میڈیا پالیسی مرتب کی گئی اور اب غنڈہ گردی کے ذریعے ذرائع ابلاغ کو خاموش کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔'