آج جہاں ملک بھر میں مسجد مندر کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرنے کا کام کیا جارہا ہے تو وہیں مہاراشٹر کے دارالحکومت ممبئی سے متصل شہر پونے کے علاقے سدا شیو پیٹھ میں تقریباً دو سو برس قبل تعمیر کیا گیا ایک ایسا مندر واقع ہے جس کی ایک الگ ہی تاریخ ہے۔
اٹھارہویں صدی کے آغاز میں پونے شہر کے ساہوکار سداشیو رگھوناتھ عرف دادا گدرے کو خواب میں مندر تعمیر کرنے کا اشارہ ملا اور انھوں نے ایک قیمتی ماربل سے مندر کی مورتی بنوائی۔
دادا گدرے نے مندر تو تعمیر کروادیا لیکن مورتی کو ان کی رہائش گاہ کے قریب تراشا جارہا تھا۔
لیکن اسی وقت باجی راؤ نامی طاقتور پیشوا اس علاقے میں بس گیا اور یہاں تراشی جارہی مورتی اسے پسند آگئی جسے وہ اپنے پاس رکھنے کا مطالبہ کرنے لگا۔
لیکن چونکہ یہ دادا گدرے کی عقیدت کا معاملہ تھا اس لیے وہ اس مورتی کو دینے پر رضا مند نہیں ہوئے اور اس بات سے باجی راؤ ناراض ہوگیا۔
دادا گدرے کو باجی راؤ کی طاقت کا بخوبی اندازہ تھا اور اسی لیے انھوں نے خطرہ ہونے کے پیش نظر مورتی کو مندر تک پہنچانے کے لیے ایک حکمت عملی اختیار کی۔
دادا گدرے نے چھ مئی 1797 میں مورتی کو مندر تک پہنچایا اور اگلی صبح مندر سے متعلق تمام رسومات ادا کرنا شروع کردیا۔
دادا گدرے ایک بہت بڑے ساہوکار تھے اس لیے انھوں نے مندر کی حفاظت کے لیے 200 عربی مسلمانوں پر مشتمل ایک فوجی دستے کو وہاں تعینات کروادیا۔
انھوں نے فوج کو ہدایت کردی تھی کہ جب تک مندر کی تمام رسومات ادا نہیں کردی جاتی تب تک کسی بھی دیگر شخص کو مندر میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔
اس وقت ملک میں برطانوی حکومت کا آغاز ہوچکا تھا اور باجی راؤ کو برطانوی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ تب باجی راؤ نے برطانوی فوجی بوئڈ کی سربراہی میں اپنی فوج مورتی لانے کے لیے بھیج دی۔
اس دوران مندر کے اندر جب رسومات ادا کی جارہی تھی تب یہی عربی مسلم محافظ اپنی جان کی بازی لگاکر باجی راؤ کی فوج کا مقابلہ کیا اور اس خونریز لڑائی میں تقریباً 60 افراد کی جان چلی گئی اس لیے اس مندر کو 'خونی مندر' کا نام دیا گیا۔
اس طرح کی تاریخ پر خوب بحث کی جاتی ہے کہ مسلم حکمرانوں نے مندروں کو مسمار کیا لیکن اس تاریخ کے بارے میں کسی کو بھی علم نہیں ہے کہ مسلمانوں نے جان کی بازی لگاکر مندروں کی حفاظت کی ہے۔