بیدر: یوم عاشوراء کے حوالے سے مفتی شیخ داؤد ندوی رنگم پیٹ نے کہا کہ اسلامی قمری مہینوں میں محرم الحرام کا پہلا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ چار متبرک مہینوں میں سے ایک ہے۔ اسلام سے پہلے اور بعد میں بھی یہ مہینہ متبرک سمجھا جاتا رہا۔ اس مہینہ میں جنگ و غیره ممنوع تھی اور ہے۔ ہجرت کے تقریباً 7 سال بعد اسلامی کیلنڈر کی ابتداء ہوئی اس ماہ کی دس تاریخ کو یوم عاشوراء کہا جاتا ہے، جس کے دامن سے بہت سے اہم واقعات وابستہ ہیں۔
اس دن اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی، حضرت ابراھیم علیہ السلام کو مکان علیا کی رفعت سے سرفراز کیا، حضرت نوح علیہ السلام کو طوفان سے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نار نمرود سے نجات ملی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت کا نزول ہوا، حضرت یوسف علیہ السلام قید سے نکالے گئے، حضرت یعقوب علیہ السلام کو بینائی عطا ہوئی، حضرت ایوب علیہ السلام سے تکالیف اُٹھالی گئیں، حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے، حضرت سلیمان علیہ السلام جلوہ آرائے سلطنت ہوئے اور اسی روز حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر اُٹھایا گیا۔
اسی روز دنیا کو وجود بخشا گیا، اسی روز پہلی بار بارانِ رحمت آسمان سے زمین کی طرف نازل ہوئی، اسی روز اللہ تعالیٰ نے عرش، لوح و قلم اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کو جامہ ہستی پہنایا۔ یاد ر ہے کہ جس طرح دنیا کا سنگ بنیاد عاشوراء کے دن رکھا گیا، اسی طرح دنیا کا خاتمہ یعنی قیامت بھی یومِ عاشوراء کو واقع ہوگی۔ اسی روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے 72 رفقاء کے ہمراہ میدان کربلا میں جام شہادت نوش فرمایا۔
دین اسلام چونکہ ایک مستقل مذہب ہے حضور اکرم ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی کہ اگر میں آئندہ سال بقید حیات رہا تو میں دس محرم الحرام کے روزے کے ساتھ نو محرم الحرام کا روزہ بھی ضرور رکھوں گا۔ ( صحیح مسلم جلد اول صفحہ 359)۔ چنانچہ اس ارشاد مبارک کی روشنی میں فقہائے کرام یہ مسئلہ بتاتے ہیں کہ صرف دس محرم الحرام کا روزہ نہ رکھا جائے ، بلکہ اس کے ساتھ ایک اور روزہ بھی ملا لیا جائے یعنی محرم الحرام کی نو اور دس تاریخ کا روزہ رکھے یا دس اور گیارہ تاریخ کا روزہ رکھے۔
مزید پڑھیں: حضرت سیدنا علی اصغرؓ کی شہادت ناقابل فراموش
نبی اکرم ﷺ نے اس روزے کے حوالے سے ارشاد فرمایا: "جو شخص عاشورہ کا روزہ رکھے، مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید واثق ہے کہ اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ ( صحیح مسلم جلد ۱ صفحہ ۳۶۷) ۔ فقہائے کرام نے گناہوں کی معافی کے حوالے سے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ ان سے مراد چھوٹی چھوٹی نافرمانیاں ہیں، بڑے بڑے گناہ تو خود قرآن وحدیث کی تصریح کے مطابق بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ جہاں تک اللہ کے بندوں کے حقوق غصب کرنے کا تعلق ہے، وہ صاحب حق کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوتے۔ بعض روایات میں اس دن کے حوالے سے یہ بات ملتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اہل خانہ پر عام دنوں کے مقابلے میں بہتر کھانے (اپنی استطاعت کے مطابق) کا انتظام کرے تو اللہ تعالیٰ پورا ایک سال اس کے رزق میں برکت عطا فرمائے گا۔ (مشکوۃ)۔