بیدر: موجودہ دور میں ملت اسلامیہ کا ہر چھوٹا بڑا مسئلہ پولیس اسٹیشن اور ملک کی عدالتوں میں زیر بحث ہے۔ آج کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ اپنے مسائل کو شرعی احکامات کے مطابق حل کرنے کی کوشش کرے۔ لین دین، شادی بیاہ، کاروبار، جائیداد کی تقسیم، میاں بیوی میں اختلافات، طلاق خلع جیسے مسائل کے حل کے لیے ہم پولیس اسٹیشن اور عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں جب کہ ہمدردانِ قوم و ملت، دارالافتاء، کونسلنگ سنٹر، دفتر قضائت، شریعہ بورڈ جیسے ادارے ملت اسلامیہ میں پیش آنے والے مسائل کو شرعی طور پر حل کرنے کے لیے دن رات خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان اداروں سے استفادہ کرتے ہوئے ہماری زندگی میں پیش آنے والے ہر مسئلے کو شرعی طور پر حل کرنے کی کوشش کریں۔
ریاست کرناٹک کے ضلع بیدر میں بھی آل انڈیا شریعہ بورڈ شاخ بیدر کے نام سے ایک ایسا ہی ادارہ مولانا عبدالغنی خان حسامی کی سرپرستی میں چلایا جاتا ہے، شریعہ بورڈ کے سرپرست مولانا عبدالغنی خان حسامی نے ای ٹی وی بھارت سے خاص گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میاں بیوی کے مسائل، خلع، طلاق اور دیگر مسائل کو لے کر شریعہ بورڈ اپنی نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے۔
شریعہ بورڈ کی جانب سے ہم لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام میں ہر مسئلہ کا حل موجود ہے، مولانا نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور کا مسلمان اپنے مسائل کو اپنی سہولت اور اپنی سمجھ کے مطابق حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ اسلام میں ہر مسئلے کو کس طرح سے حل کیا جائے یہ واضح طور پر بتایا اور سمجھایا گیا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے مسائل کو لے کر اس طرح کے کونسلنگ سنٹر، شریعہ بورڈ یا پھر دارالافتاء کے ذمہ داران سے رجوع کیا جائے اور اپنے مسئلے کا حل نکالا جائے۔
ملت میں شرعی معاملات کی بیداری کو لیکر علماء کی خاموشی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ علمائے کرام ہی ہیں جو ملت میں پیش آرہے ہر مسئلے کو شرعی طور پر بتانے اور پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کئی علماء کرام اس مشن میں لگے ہوئے ہیں کہ نوجوان نسل کو دینی معلومات اور شرعی احکامات سے واقف کروایا جائے لیکن نوجوانوں میں بھی اس بات کی جستجو ہونی چاہیے کہ وہ اپنے مسائل کو شرعی طور پر حل کریں۔
خواتین میں علم دین کی کمی کے سوال پر مولانا عبدالغنی خان حسامی نے کہا بے شک یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، خواتین میں اسلامی تعلیمات کو عام کرنے میں بہت ساری دشواریاں پیش آ رہی ہے، اس کی سب سے اہم وجہ یہ بھی ہے کہ جو لڑکی دینی مدرسہ سے فارغ ہوتی ہیں، شادی کے بعد وہ عالمہ حافظہ فاضلہ ہو کر بھی عام خواتین کی طرح زندگی بسر کر رہی ہے اس میں کہیں نہ کہیں ذمہ دار شوہر اور گھر کے سرپرست ہیں، انہیں اس بات کی خوشی ہونی چاہیے کہ ہمارے گھر میں ایک حافظہ عالمہ لڑکی موجود ہے اور ہم اس سے دین کا کام نہیں لے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: دہلی وقف بورڈ نے شرعی مسائل کے حل کیلئے ہیلپ لائن نمبر جاری کیا
انہوں نے کہا کہ شہر کے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام ایسی لڑکیاں جو عالمہ حافظہ ہیں لیکن ان کی شادی ہو چکی ہے ان کے شوہر اور گھر کے ذمہ داران سے بات کرتے ہوئے انہیں مختلف مکاتب اور مدارس اپنے اپنے علاقے میں علم دین کی خدمت کرسکے، اس کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مولانا عبدالغنی خان حسامی نے کہا کہ جامعہ زبیدہ للبنات بیدر میں ایسی لڑکیاں جن کی شادی مقرر کی گئی ہے ان کے لیے خصوصی اسلامی دینی کورس چلایا جا رہا ہے، والدین اور سرپرستوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ اس خصوصی کورس میں اپنی لڑکیوں کا داخلہ کروائیں۔