انہوں نے اپنی اپیل میں مزید کہا کہ صدر جموں و کشمیر میں قانون کی حکمرانی واپس لانے کے لیے مداخلت کریں کیونکہ لیفٹننٹ گورنر کو ریاست میں قانونی اور سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
پروفیسر بھیم سنگھ نے جموں وکشمیر میں گزشتہ تین مہینہ سے تسلیم شدہ سیاسی جماعتوں کے سینئر رہنماؤں کی قید پر افسوس کا اظہار کیا جو کشمیر میں حراستی مراکز میں قید میں ہیں جن میں سنٹور ہوٹل اور گیسٹ ہاوس وغیرہ شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی بھی شخص (خواہ بھارت کا شہری نہ ہو)کو مقدمہ یا ایف آئی آر کے بغیر تین مہینہ سے زیادہ حراست میں رکھا جائے اور ایسا کرنا غیرقانونی، غیر آئینی ہے، جو آئین کے چیپٹر۔3میں دیئے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جو 5اگست 2019کو صدر کے ذریعہ آرٹیکل 35 اے کو، جسے 14 مئی 1954کو صدر کے آرڈی ننس سے جموں وکشمیر میں فذ کیا گیا تھا، ہٹانے کے بعد ریاست میں نافذ ہوگئے ہیں۔
اس کے بعد تین سابق وزرائے اعلی سمیت کسی بھی شخص کو پی ایس اے کے تحت قید میں رکھا جانا غیرقانونی اور بنیادی حقوق کی خلا ف ورزی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بھی دلچسپ ہے کہ حکومت ہند کشمیر میں ان31سیاسی قیدیوں کی دیکھ بھال میں اب تک 2کروڑ 63لاکھ روپے خرچ کرچکی ہے۔